پیغام کا ذریعہ ایک ، تین صحافیوں نے سوچے سمجھے بغیر ٹوئٹر پر داغ دیا

سید طلعت حسین ، نجم سیٹھی اور اسد علی طور نے الزام عائد کیا ہے کہ سابق وزیراعظم نے تحریک عدم اعتماد سے بچنے کے لیے اے زیڈ سے رابطہ کیا تھا۔

پاکستان کے تین سینئر صحافیوں نے سابق وزیراعظم عمران خان پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین نے تحریک عدم اعتماد سے بچنے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کے کوچیئرمین سے این آر او مانگا تھا۔

سابق وزیراعظم سے متعلق بریکنگ نیوز دیتے ہوئے پاکستان کے موسٹ سینئر جرنلسٹ اور یوٹیوبر سید طلعت حسین سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیغام شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ” ابھی ابھی خبر ملی ہے کہ عمران خان نے اپنے دوست ملک ریاض کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے قبل آصف زرداری کے پاس بھیجا اور ووٹنگ کا حصہ نا بننے کی درخواست کی تھی۔”

یہ بھی پڑھیے

میہڑ میں آتشزدگی، غفلت برتنے پر ڈی سی ، ڈی ایچ او دادو اور اے سی میہڑ معطل

پاک افغان بارڈر پر دہشتگردوں کی فائرنگ، پاک فوج کے تین جوان شہید

انہوں نے مزید لکھا ہے کہ "یعنی انہوں نے این آر او مانگا تھا، تاہم آصف زرداری نے صاف انکار کر دیا۔”

اسی طرح 24 نیوز کے اینکر پرسن اور سینئر صحافی نجم سیٹھی نے سید طلعت حسین کی نقالی کرتے ہوئے بریکنگ نیوز دی ہے کہ "چڑیا نے تصدیق کی کہ 27 مارچ کو عمران خان نے بگ بی (بڑے بھائی) سے پی ڈی ایم کی تحریک عدم اعتماد واپس لینے کی درخواست کی ہے بدلے میں قومی اسمبلی کو تحلیل کرکے نئے انتخابات کرانے کا وعدہ کیا ہے۔

سینئر صحافی نجم سیٹھی نے مزید لکھا ہے کہ "جب پی ڈی ایم نے انکار کیا تو انہوں نے این آر او کے لیے اے زیڈ (آصف زرداری) کو نجی پیغام بھیجا تھا۔ لیکن AZ نے انکار کر دیا تھا۔ کیونکہ وہ بگ بی (بڑے بھائی) کو فوجداری مقدمات سے بچانے کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے۔

کچھ ایسا ہی پیغام ٹوئٹر پر شیئر کرتے ہوئے یوٹیوبر اور صحافی اسد علی طور نے لکھا ہے کہ "ذرائع کا دعویٰ ہے کہ عدم اعتماد کے ووٹ سے عین قبل سابق وزیراعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے (زمینوں پر قبضہ کرنے والے) ملک ریاض کو سابق صدر آصف علی زرداری کے پاس بھیجا کہ وہ عدم اعتماد کے ووٹ کا حصہ نہ بنیں لیکن آصف زرداری نے تعاون کرنے سے انکار کردیا۔”

غیرجانبدار تجزیہ کاروں کا کہنا ہے ایسا لگتا ہے کہ تینوں شریفوں کے پروردہ صحافیوں کو ایک ہی جگہ سے پیغام ملا تھا اور انہوں نے الفاظ کے کچھ ہیرپھیر سے اپنے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر اس کو داغ دیا ، صحافی کا کسی پارٹی کا حصہ بننا تشویشناک بات ہے کیونکہ اس طرح صحافتی اصول پامال ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ صحافی کا کام ہے جائز تنقید کرنا ناکہ کسی پارٹی کا حصہ بن کر کسی کی ذات پر کیچڑ اچھالنا شروع کردے۔ جوکہ صحافتی اصولوں کے بالکل خلاف ہے۔ صحافی کا کام خبر دینا مگر خبر بھی وہ جو درست اور حقائق پر مبنی ہو۔

متعلقہ تحاریر