لوگوں نے چھٹی پوری کی ، یکم مئی کو بھی مزدوروں نے مزدوری کی

پاکستان میں بچوں سے مشقت لینا جرم ہے لیکن آج بھی غریب پاکستانی بچے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی آج یکم مئی کو یوم مزدور منایا جارہا ہے۔اس موقع پر مزدور تنظیموں کی جانب سے سیمینار،ریلیاں اور جلسے منعقد کئے جارہے ہیں۔

عالمی یوم مزدور ہر برس یکم مئی کو جوش وخروش سے منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد امریکہ کے شہر شکاگو کے محنت کشوں کی جدوجہد کویاد کرنا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

رہنما (ن) لیگ حنا پرویز بٹ ٹوئٹر پر لوگوں کو تشدد پر اکسانے لگیں

سعودی عرب میں شوال کا چاند نظر نہیں آیا، عید 2 مئی کو ہوگی

یوم مئی  یا یوم مزدور کی ابتدا شکاگو میں 1886ء میں محنت کشوں کی طرف سے آٹھ گھنٹے کے اوقات کار کے مطالبے سے ہوا ۔اس دن امریکہ کے محنت کشوں نے مکمل ہڑتال کی۔اس جدوجہد میں کئی مزدوروں کو جان کا نذرانہ پیش کرنا پڑا۔

‏مزدوروں کا عالمی دن منانے کا مقصد یہ احساس اجاگر کرنا ہے کہ ہمیں متوسط و مزدور طبقے کی فلاح و بہبود اور بہتر زندگی کے لئے مشترکہ کوشش کرنی چاہیے۔

پاکستان کے ادارہ برائے شماریات کے 2018 کے اعدادو شمار کے مطابق ملک میں مزدوروں کی تعداد  ساڑھے چھ کروڑوں ہے تاہم اب اس ورک فورس کی تعداد ایک کروڑ 40 لاکھ ہے۔جن  میں سے تقریباً 38 فیصد زراعت کے شعبہ سے وابستہ ہے جبکہ دیگر اہم  شعبوں میں جنگلات، ماہی گیری اور شکار سے منسلک ہیں ،16 فیصد سے زائد لیبر کارخانوں میں کام کرتی ہے۔

کسی شاعر نے کیا خوب کہا تھا کہ

شہر   میں   مزدور   جیسا   در   بدر   کوئی  نہیں

جس نے سب کے گھر بنائے اس کا گھر کوئی نہیں

پاکستان میں مزدور آج بھی لاتعداد مسائل سے دوچار ہیں۔شہباز شریف نے وزیر اعظم منصب سنبھالتے ہی کم سےکم اجرت بڑھا کر 25ہزار روپے کرنے کا اعلان کیا تھا مگر محض اعلان کردیا کافی نہیں،اس پر عمل در آمد بھی ضروری ہے۔ اس معاملے پر نجی شعبے خاص طور پر کارخانہ دار طبقے سے کم سے کم اجرت دلانا اور مزدوروں کو دیگر حقوق کی فراہمی حکومت کی زمہ داری ہے۔

جب تک کسی ملک کا مزدور طبقہ خوشحال اور مطمئن نہیں ہوگا وہ ملک ترقی نہیں کرسکتا۔

ملکی تاریخ میں جتنی بھی حکومتیں آئیں وہ مزدوروں کے حقوق دلانے کے دعوے تو کرتی رہیں مگر اس حوالے سے ٹھوس پیش رفت نہ ہوسکی۔

پاکستان میں اجرتوں کی ادائیگی اور انکے تعین کے لئے تین قوانین ۔ پے منٹ آف ویجز ایکٹ 1936 ،کم از کم اجرت کا قانون 1961 اور قانون برائے غیر مہارت یافتہ کارکنان (جیسےکوئلے کی کان میں کام کرنے والے کارکنان) کی اجرتوں کے تعین کا قانون 1960 موجود ہے مگر اس پر مکمل عمل درآمد نہیں ہورہا اسی لئے ملک کی لیبر کورٹس میں سالہا سال سے ہزاروں مقدمات زیر التوا ہیں۔مزدوروں کی بڑی تعداد استحصال،جبری مشقت اور خطرناک حالات میں کام کرنے پر مجبور ہے۔

ملک میں ملازمین  کی اکثریت کو اپائنٹمنٹ لیٹر تک نہیں دیا جاتا اور ملازمت سے برخاست ہونے پر وہ لیبر ڈیپارٹمنٹ یا لیبر کورٹ میں دعویٰ دائر کرنا چاہتا ہے کہ اسے غیر قانونی طور پر برخاست کیا گیا  یا اسے تنخواہ اور واجبات کی ادائی نہیں کی جارہی تو وہ یہ بات ثابت ہی نہیں کرپاتے۔

پاکستان میں مزدور اور محنت کش طبقہ مہنگائی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔بڑھتی ہوئی بیروزگاری، غربت اور معاشی بدحالی نے بھی اس کی زندگی اجیرن کردی ہے۔

پاکستان میں بچوں سے مشقت لینا جرم ہے لیکن آج بھی غریب پاکستانی بچے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔

پاکستان میں اب بھی عارضی اور کنٹریکٹ لیبرکا دور دورہ ہے جبکہ فیکٹریاں اورکارخانے عملاً ہر قسم کی لیبرانسپکشن سے مبرا ہیں۔

صحت کی ضروری سہولیات اور حفاظتی اقدامات کے حوالے سے ملکی اور بین الاقوامی بنیادی اصولوں کو مجرمانہ حدتک نظر اندازکیا جارہا ہے۔کارخانوں میں مقررہ 8گھنٹوں کی بجائے  دس بلکہ 12 سےگھنٹے کام لیا جاتا ہے۔

متعلقہ تحاریر