پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کا معاملہ ، کیا فیصلہ 14 مئی تک آجائے گا؟
آئینی ماہرین کے مطابق کسی رکن کو اسمبلی رکنیت سے نااہل کرنے کا عمل قومی اسمبلی میں پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے کے بعد ہی شروع ہوتا ہے اور یہ مرحلہ خاصا طویل ہے۔
سابق وزیرِ اعظم اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کا معاملے جہاں سامنے آیا وہاں پی ٹی آئی کے 46 منحرف ارکانِ قومی اسمبلی نے فلور کراسنگ اور ہارس ٹریڈنگ کے حوالےسے بحث کو جنم دیا۔
منحرف اراکین کا معاملہ پہلے عدالت عالیہ (سپریم کورٹ) اور اب الیکشن کمیشن میں پی ٹی آئی کے 20 اراکین قومی اسمبلی اور 26 اراکین پنجاب اسمبلی کے خلاف ریفرنس زیر غور ہے، جس پر الیکشن کمیشن نے 14 مئی تک فیصلہ کرنا ہے، جس کے ملک کی آئندہ جمہوری و سیاسی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیے
گورنر پنجاب نے عدلیہ کو نشانے پر رکھ لیا،جج کیخلاف ریفرنس لانے کااعلان
توہین مذہب کے مقدمات، حکومت کو غلطی کا احساس دلا دیا گیا
پاکستان تحریک انصاف کے منحرف اراکین کا معاملہ 16 مارچ کو سامنے آیا جب اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے سوات جلسے میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد میں واقع سندھ ہاؤس میں نوٹوں سے بعض اراکین کے ضمیر خریدے جارہے ہیں جبکہ اگلے روز 17 مارچ کو سندھ ہاؤس میں موجود پی ٹی آئی کے بعض ناراض اراکین قومی اسمبلی کے انٹرویو سامنے آئے جن میں ان کا دعویٰ تھا کہ وہ "ضمیر کی آواز” پر عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں ووٹ دیں گے تاہم پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے پر نااہلی کا معاملہ سامنے آنے کے بعد منحرف اراکین نے تحریک عدم اعتماد میں حق رائے دہی استعمال نہیں کیا۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی طرف سے منحرف اراکین کے خلاف ریفرنس اسپیکر قومی اسمبلی کے پاس 9 اپریل کو جمع کروایا گیا تھا۔
جس میں کہا گیا تھا کہ یہ ریفرنس آرٹیکل 63 اے کے تحت جمع کروایا گیا ہے۔ ریفرنس کے متن میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ منحرف اراکین پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے اور پھر انہوں نے پی ٹی آئی چھوڑ کر اپوزیشن میں شمولیت اختیار کرلی۔
ریفرنس میں کہا گیا تھا کہ منحرف اراکین کو شوکاز نوٹس جاری کئے گئے مگر انہوں نے شوکاز نوٹس کا خاطر خواہ جواب نہیں دیا۔ ریفرنس میں درخواست کی گئی کہ منحرف اراکین کو ڈی سیٹ (قومی اسمبلی رکنیت کا خاتمہ) کرنے کی کارروائی شروع کی جائے۔
پی ٹی آئی) کے منحرف اراکین قومی اسمبلی نے گزشتہ روز الیکشن کمیشن آف پاکستان میں جمع کرائے گئے اپنے تحریری جوابات میں موقف اختیار کیا ہے کہ انہوں نے نہ تو پی ٹی آئی سے استعفیٰ دیا ہے اور نہ ہی کسی دوسری سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کی ہے۔
ان کا کہنا تھاکہ ریفرنس بے بنیاد، غیر مصدقہ اور مبہم ہے۔ پارٹی میں اختلاف رائے کو دبانے کے لیے ریفرنس دائر کیا گیا۔
آئینی ماہرین کے مطابق کسی رکن کو اسمبلی رکنیت سے نااہل کرنے کا عمل قومی اسمبلی میں پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے کے بعد ہی شروع ہوتا ہے اور یہ مرحلہ خاصا طویل ہے۔ آئین کے مطابق اس معاملے میں اسپیکر اسمبلی کی حیثیت محض پوسٹ آفس کی ہے۔
آئین میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد شق 63 اے میں یہ واضح کردیا گیا کہ اگر کوئی ممبر قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی اپنی جماعت کے خلاف ووٹ ڈالتا ہے یا ووٹ ڈالنے سے منع کرتا ہے تو جماعت کا سربراہ اسپیکر اسمبلی کو رکن کے منحرف ہونے کا ریفرنس بھیج سکتے ہیں۔
منحرف اراکین کے حوالے سے پہلے 73 کے آئین میں کوئی واضح شق موجود نہیں تھی تاہم 1997 میں نواز شریف کی دوسری حکومت کے دوران چودھویں ترمیم کے تحت 63 اے کی شق کو آئین کا حصہ بنایا گیا، جس کے تحت کسی بھی سیاسی جماعت کے رکن کی جانب سے پارٹی کے خلاف ووٹ دینے پر تادیبی کارروائی کی جاسکتی ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے منحرف ارکان قومی اسمبلی کون ہیں؟
احمد حسن ڈیہڑ
احمد حسن ڈیہڑ ملتان سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔
سید باسط سلطان بخاری
سید باسط سلطان بخاری 2018 کے عام انتخابات میں جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے پلیٹ فارم پر سرگرم ہوئے۔ اس الیکشن میں کامیاب رہے اور پھر پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے۔
رانا قاسم نون
رانا قاسم نون کا تعلق ملتان سے ہے جو 2018 کے عام انتخابات سے قبل مسلم لیگ ن کے منحرف رُکن تھے۔ اِنھوں نے مسلم لیگ ن کو چھوڑ کر جنوبی پنجاب صوبہ محاذ بنایا تھا اور ملتان سے رکن قومی اسمبلی کامیاب ہوئے تھے۔
نواب شیر وسیر
نواب شیر وسیرنے 2018 کے انتخابات میں این اے 102 سے طلال چوہدری کو شکست دی تھی اور اپریل 2018 میں بنی گالہ جا کر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی۔
ڈاکٹر رمیش کمار
اقلیتی رکن ڈاکٹر رمیش کمار نے اپریل 2018 کو مسلم لیگ ن چھوڑ کر پی ٹی آئی کو شمولیت اختیار کی تھی۔
راجہ ریاض
راجہ ریاض نے2018 کے الیکشن میں پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر حلقہ این اے 110 سے کامیابی حاصل کی تھی۔
نور عالم خان
نور عالم خان نے مئی 2017 میں پیپلز پارٹی کو چھوڑ دیا تھا اور جہانگیر خان ترین سے ملاقات کر کے پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کیا تھا۔ وہ 2018 کے الیکشن میں پشاور کے حلقہ این اے 27 سے پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر ایم این اے بنے۔
ریاض مزاری
ریاض مزاری 2018 کے انتخابات میں آزاد حیثیت سے جیتے تھے۔ یہ جہانگیر خان ترین کی بدولت پی ٹی آئی میں شامل ہوئے۔ یہ الیکشن سے قبل مسلم لیگ ن سے علیحدہ ہو گئے تھے۔
محمد عبدالغفار وٹو
محمد عبدالغفار وٹو 2018 کے الیکشن میں بہاول نگر کے حلقہ این اے 166 سے آزاد حیثیت میں کامیاب ہوئے تھے۔ بعدازاں پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔
نزہت پٹھان
نزہت پٹھان کا تعلق حیدر آباد سے ہے۔ وہ مخصوص نشست پر قومی اسمبلی کی رُکن بنی تھیں۔
وجیہہ اکرم
وجیہہ اکرم سنہ 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی سے خواتین کی مخصوص نشست پر ایم این اے منتخب ہوئی تھیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے 26 منحرف اراکین پنجاب اسمبلی کی جانب سے وزیراعلی پنجاب کے انتخاب میں حمزہ شہباز کو ووٹ دینے پر اسپیکر پرویزالہی کی جانب سے الیکشن کمیشن میں ریفرنس دائر کر دیا گیا تھا۔
جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ان منحرف ارکان نے وزیراعلیٰ کے انتخاب میں حمزہ شہبازکو ووٹ دیکر 63 اے کی خلاف ورزی کی۔ ان منحرف ارکان کے خلاف آرٹیکل 63 اے کے تحت کارروائی عمل میں لانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
پاکستان تحریک انصاف کے ان منحرف ارکان میں راجہ صغیر، ملک غلام رسول سنگھا، سعید اکبر نوانی، محمد اجمل، فیصل حیات جبوانہ، مہر محمد اسلم، خالد محمود، عبد العلیم خان ، نذیر چوہان، محمد امین ذوالقرنین، نعمان لنگڑیال، نعیم سلمان، زوار حسین وڑائچ، نذیر احمد خان، فدا حسین، زہرہ بتول، محمد طاہر، عائشہ چوہدری، ساجدہ یوسف، ہارون گل، عظمی کاردار، ملک اسد کھوکھر ، اعجاز مسیح گل، سبطین رضا، جاوید اختر اور محسن عطا کھوسہ شامل تھے۔