ضلع مہمند اور باجوڑ میں سنگین مالی بدعنوانی ،40 روز میں 384 ملین خرچ

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ریاستی و سرحدی امور  کا کہنا ہے کوئی منصوبہ مکمل نہیں ہوا مگر کنٹریکٹرز کو بھاری رقوم ادا کردی گئیں۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ریاستی و سرحدی امور نے ضلع مہمند اور باجوڑ میں ترقیاتی منصوبوں پر 40 روز کے دوران 384 ملین روپے خرچ کرنے کے دعوے اور پیپرا رولز کی خلاف ورزی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب کوئی منصوبہ مکمل ہی نہیں ہوا تو کنٹریکٹرز کو ادائی کیسے کردی گئی۔

قائمہ کمیٹی کے سامنے پاک پی ڈبلیو ڈی کے حکام اطمینان بخش جواب دینے سے قاصر رہے۔ کمیٹی نے ڈی جی نیب خیبرپختونخوا، ڈی جی ایف آئی اے اور ڈی سی ضلع مہمند کو آئندہ اجلاس میں طلب کر لیا۔

یہ بھی پڑھیے

حکومت کی صدر مملکت پر اور صدر کی حکومت پر تنقید

عدلیہ کے متوازی اختیارات کا استعمال، ہائی کورٹ کا الیکشن کمیشن سے جواب طلب

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ریاستی و سرحدی امور کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر ہلال الرحمن کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔

2021-22 کے لیے قبائلی ضلع مہمند اور باجوڑ میں ایس ڈی جی ترقیاتی اسکیموں کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی۔

کمیٹی کو فراہم کردہ معلومات کے مطابق 475 ملین کی لاگت سے گیارہ منصوبوں پر کام جاری ہے جس  میں سے 384 ملین کی رقم استعمال کی جا چکی ہے۔

چیئرمین کمیٹی سینیٹر ہلال الرحمن نے استفسار کیا کہ کس طرح صرف چالیس دن کے اندر اتنی رقم استعمال کر لی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ضلع مہمند جیسے علاقے میں ایسا کر پانا ناممکن ہے۔

چیئرمین کمیٹی نے تمام منصوبہ جات میں پیپرا رولز کی سنگین خلاف ورزی پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ سابقہ فاٹا کے غریب عوام کا پیسہ ہے ہم اسکو اس طرح چوری نہیں ہونے دیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ”جب کوئی منصوبہ مکمل ہی نہیں ہوا تو کیسے کنٹیکٹرز کو پیشگی ادائیگی کر دی گئی؟“ تاہم پاک پی ڈبلیو ڈی کے حکام اس حوالے سے کوئی تسلی بخش جواب دینے سے قاصر رہے۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے 17 مئی کو آئندہ اجلاس میں ڈی جی نیب خیبرپختونخواہ، ڈی جی ایف آئی اے اور ڈی سی ضلع مہمند کو طلب کر لیا۔

چیئرمین کمیٹی کا کہنا تھا کہ اس معاملے کی جامع تحقیقات کرتے ہوئے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائیگی۔

کمیٹی کو نئے ضم شدہ اضلاع کے لوکل گورنمنٹ دفاتر میں خالی اسامیوں کے حوالے سے بریفنگ دی۔

کمیٹی ممبران اور چیئرمین کمیٹی نے بڑے پیمانے پر آسامیاں خالی ہونے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔

حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ خالی آسامیوں پر جولائی تک تقرریوں کا عمل مکمل ہو جائے گا۔

سینیٹر ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے کہا کہ تمام تقرریاں چاہے کسی بھی درجے کی ہوں ایک ضابطے، ضرورت اور میرٹ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کی جائیں۔ تقرریوں میں سیاسی عمل دخل انتہائی تشویش ناک ہے۔

سینیٹر دوست محمد خان نے تجویز دی کہ بارودی سرنگوں کے دھماکوں کی وجہ سے سابقہ فاٹا میں زخمی یا شہید ہونیوالے افراد کے ورثاء  کو ان آسامیوں پر بھرتی کے لیے ترجیح دی جائے۔

سینیٹر دنیش کمار نے اقلیتی کوٹہ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اقلیتوں کو صرف درجہ چہارم کی آسامیوں پر بھرتی کرنا نا انصافی ہے۔ تمام گریڈ کی آسامیوں پر اقلیتی کوٹہ کا خیال رکھا جانا چاہیے۔

چیئرمین کمیٹی سینیٹر ہلال الرحمن نے ہدایت دی کہ تمام خالی آسامیوں پر جلد از جلد تقرریاں کی جائیں۔

چیئرمین کمیٹی نے سابقہ فاٹا کے مسائل کو یکسو کرنے کے لیے سینیٹر ڈاکٹر ثانیہ نشتر کی زیر قیادت ایک ذیلی کمیٹی قائم کردی۔ سینیٹر ہدایت اللہ، سینیٹر حاجی ہدایت اللہ خان، اور سینیٹر دوست محمد خان کمیٹی کا حصہ ہونگے۔

وفاقی وزیر برائے ریاستی و سرحدی امور سینیٹر طلحہ محمود نے کمیٹی کو طالبان حکومت کے آنے کے بعد افغانستان سے مہاجرین کی پاکستان میں آمد کے حوالے سے بتاتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے پاکستانی حکومت کی پالیسی واضع ہے۔

حکومت پاکستان کسی طور بھی غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہونے والے افغان شہریوں کو مہاجرین کا درجہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔

اُنکا کہنا تھا افغان ہمارے بھائی ہیں ہم نے اپنے افغان بھائیوں کے لیے بہت کچھ کیا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ افغان مہاجرین کو باعزت افغانستان واپس جانا چاہیے۔

سینیٹر طلحہ محمود کا کہنا تھا کہ افغانستان سے پاکستان داخلے کے تمام پوائنٹس کو ریگولیٹ کریں گے۔ افغان مہاجرین کی آڑ میں پاکستان مخالف تخریبی عناصر امن امان خراب کرنے کی نیت سے پاکستان میں داخل ہوتے رہے ہیں۔ پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کی تعداد معلوم کرنے کے لیے نادرا اور دیگر اداروں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔

سینیٹر طلحہ محمود نے تشویش کا اظہار کیا کہ ماضی میں بہت سے افغان مہاجرین غیر قانونی طور پر پاکستانی شناختی کارڈ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے جس کا تدارک انتہائی ضروری ہے۔

متعلقہ تحاریر