سپریم کورٹ نے ہائی پروفائل کیسز کی تحقیقات پر تعینات افسران کے تبادلوں پر پابندی لگادی

چیف جسٹس کے حکم پر صوبائی پراسیکوٹر جنرلز ، سربراہ پراسیکیویشن اور ایف آئی اے ، لیگل ڈائریکٹ ایف آئی اے کو بھی نوٹس جاری کر دیئے گئے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے ہائی پروفائل کیسز کی تحقیقات کرنے والے افسران کی تقرریوں اور تبادلے پر سختی سے پابندی لگا دی ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5رکنی لارجز بینچ  نے حکومتی شخصیات کی جانب سے تحقیقات میں مبینہ مداخلت پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر ،جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس محمد علی مظہر شامل ہیں۔ حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے۔

یہ بھی پڑھیے

مریم نواز اے آر وائی نیوز پر پھٹ پڑیں، بائیکاٹ کا عندیہ

پنجاب پولیس میں بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ ، متعدد اعلیٰ افسران تبدیل

سماعت کی ابتداء میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا اٹارنی جنرل آپ کے آنے کا شکریہ ، کیا آپ نے پیپر بک پڑھا ہے۔

اٹارنی جنرل نے جواب میں کہا جی میں نے پڑھا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا اٹارنی جنرل کیا آپ نے سو موٹو کیس کی پیپر بک پڑھی ہے۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا پیپر بک نہیں پڑھی۔

اٹارنی جنرل کو سو موٹو نوٹس کیس کی پیپر بک پڑھنے کے لئے دی گئی۔

چیف جسٹس نے کہا پیپر بک کا پیراگراف 2/3 پڑھ لیں۔

چیف جسٹس نے پھر استفسار کیا کہ آپ نے سو موٹو کا بیک گراؤنڈ پڑھ لیا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سوموٹو کا بیک گراؤنڈ نوٹ پڑھ کرسنایا۔ ایف آئی اے کے لاہور کی عدالت میں پراسیکیوٹر کو تبدیل کردیا گیا، ڈی جی ایف آئی اے اور ڈائریکٹر رضوان کو بھی تبدیل کردیا گیا، ڈی جی ایف آئی اے نے ایک تفتیشی کو پیش ہونے سے منع کیا ، پراسیکیوشن برانچ اور پراسیکیوشن کے عمل میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے، پراسیکیوشن کو ہٹانے کا جاننا چاہتے ہیں، ڈی جی ایف آئی اے سندھ سے ہیں اچھا کام کرہے تھے، کے پی کے میں بھی انکی کارکردگی اچھی تھی، ڈی جی ایف آئی اے ثناء االلہ عباسی اچھی شہرت کے حامل افسر ہیں، ڈاکٹر رضوان کو بھی تبدیل کر دیا گیا، وہ دباؤ برداشت نہ کرسکے اور ان کو ہارٹ اٹیک ہوگیا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہمیں ان معاملات پر تشویش ہے۔ اخبارات کے تراشوں کے مطابق ای سی ایل سے نام نکلنے پر ہزاروں افراد کا فائدہ ہوا، ان معاملات کو جاننا چاہتے ہیں، اخبار کی خبر کے مطابق ای سی ایل رولز میں تبدیلی تین ہزار افراد کو فائدہ ہوا، ہم ایسی خبریں ایک ماہ سے دیکھ اور پڑھ رہے ہیں، اس سے قانون کی حکمرانی پر اثر پڑ رہا ہے، امن اور اعتماد کو معاشرے میں برقرار رکھنا آئین کے تحت ہماری ذمہ داری ہے۔

عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا ہمیں قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنا ہے، یہ کاروائی کسی کو ملزم ٹھہرانے یا کسی کو شرمندہ کرنے کے لیے نہیں ہے ، یہ کاروائی فوجداری نظام اور قانون کی حکمرانی کو بچانے کے لیے ہے، چاہتے ہیں ارٹیکل 10/A 4 اور 25 پر عمل کیا جائے، ہم متعلقہ فریقین کو نوٹس جاری کررہے ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے حکم پر چیرمین نیب، ڈی جی ایف آئی اے اور سیکرٹری داخلہ کو نوٹس جاری کر دیئے گئے۔

اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا وضاحت کریں مقدمات میں مداخلت کیوں ہورہی ہے، ایف آئی اے پراسیکوٹر نے مداخلت پر بیان دیا۔

جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا ایف آئی اے نے ان معاملات کے تردید نہیں کی۔ ایف آئی اے کا موقف ہے یہ روٹین کے معاملات ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا امید کرتا ہوں کہ وفاقی حکومت ان اقدامات کی وضاحت کرنے میں تعاون کرے گی۔ اپریل اور مئی میں کئی اخباری خبروں کو پیپر بک میں شامل کیا گیا ہے۔ خبروں کے مطابق نیب کا فوجداری ریکارڈ غائب ہونا شروع ہو گیا۔ نیب کے چار مقدمات میں ریکارڈ گم ہونے کی خبر بھی ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا اٹارنی جنرل ان معاملات میں ہماری مدد کریں۔ جج کو اپنی زمہ داریوں سے آگاہ ہونا چاہیے۔ ججز کو بڑا محتاط ہونا چاہیے۔ ججز کو قانون کے مطابق فرائض سمجھنے ہیں۔

چیف جسٹس کے حکم پر صوبائی پراسیکوٹر جنرلز ، سربراہ پراسیکیویشن اور ایف آئی اے ، لیگل ڈائریکٹ ایف آئی اے کو بھی نوٹس جاری کر دیئے گئے۔

عدالت نے حکم دیا کہ ہائی پروفائل مقدمات میں پراسیکوشن تحقیقات برانچ میں تاحکم ثانی ٹرانسفر پوسٹنگ نہیں کی جائے گی۔ عدالت نے نیب ایف آئی اے کو تاحکم ثانی کوئی بھی مقدمہ عدالتی فورم سے واپس لینے سے روک دیا۔ تمام افسران اپنے تحریری جوابات جمع کروائیں۔

متعلقہ تحاریر