اویس منگل والا اور اسد علی طور سوشل میڈیا محاذ پر آمنے سامنے

غیرجانبدار تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے اگر صحافی سوشل میڈیا پر سینگ پھنسا کر بیٹھ جائیں گے تو صحافتی اقتدار کی حفاظت کون کرے گا۔

معروف صحافی اور یوٹیوبر اسد علی طور اور معروف اینکر پرسن اویس منگل والا نے سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کے خلاف محاذ کھول دیا ہے، تاہم غیرجانبدار تبصرہ نگاروں کا کہنا ہے صحافتی برادری کو اخلاقیات کی حدود کو پھلانگتے ہوئے پہلے اپنے اسٹیٹس کا خیال کرنا چاہیے۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر یوٹیوبر اسد علی طور نے اویس منگل والا اور سینئر صحافی شفاء یوسفزئی کی تصویر شیئر کرتے ہوئے طنزیہ جملہ لکھا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

یاسر حسین کی فٹنس کو پولیس کی کارکردگی سے جوڑنے کی مضحکہ خیز منطق

منصور علی خان شو: بشریٰ بی بی کی مبینہ آڈیو لیک پر غریدہ اور مہر نے سینگ پھنسا لیے

اسد علی طور لکھتے ہیں کہ ” نیوٹن کے بعد فزکس میں اویس تھیوری بھی متعارف “ہاتھ باندھ کے کھڑے ہونے سے جگہ کُشادہ” ہوتی ہے۔

اسد علی طور نے مزید لکھا ہے کہ "یہ درباریوں کی لاجک ہے۔”

اسد علی طور کو ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے اینکر پرسن اویس منگل والا نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر یوٹیوبر کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "کچھ لوگوں کے اندر کیڑا نہیں ہوتا بلکہ اژدھا ہوتا ہے. اور اس اژدھے کے اندر ایک کیڑا ہوتا ہے. جب کیڑا اژدھے کو کاٹتا ہے تو پھر اژدھا ان لوگوں کو کاٹتا ہے۔”

اویس منگل والا نے مزید لکھا ہے کہ "رسوائی کا شوق ہوتا ہے ان لوگوں کو. مثال آپ کے سامنے ہے۔”

اسد علی طور اور اویس منگل والا کی ٹوئٹس پر سوشل میڈیا صارفین نے اپنے اپنے انداز میں مزیدار تبصرے پاس کیے ہیں مگر سینئر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے صحافی کا کام ہے کہ مثبت باتوں کو آگے بڑھائے تاکہ طعن و تشنیع میں اتنا آگے نکل جائے کہ اخلاقیات کا دورازہ بند ہو جائے۔ خواتین کی لڑائیاں تو سنتے آرہے ہیں مگر اب صحافی بھی خواتین کی سوشل میڈیا پر سینگ پھنسا کر بیٹھ جاتے ہیں جو کسی بھی طور پر صحافت جیسے مقدس پیشے کے لیے جائز نہیں ۔ صحافت معاشرے کی تیسری آنکھ ہے اور جمہوریت میں چوتھا ستون گنا جاتا ہے۔

متعلقہ تحاریر