خاتون وکیل کی نمائندگی کے بغیر چائلڈ میرج ایکٹ کی کمیٹی تشکیل
وزارت مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کی جانب سے چائلڈ میرج ایکٹ 1929 کا جائزہ لینے کے لئے 10رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔
حکومت پاکستان نے نکاح نامے اور بچوں کی شادی (چائلڈ میرج ایکٹ) سے متعلق قانون کا جائزہ لینے کے لیے دس رکنی کمیٹی تو بنا دی مگر اس میں کسی خاتون کو نمائندگی نہیں دی جبکہ ملکی قانون کے مطابق مرد اور خاتون کے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کا عمل شادی کہلاتا ہے مگر شادی سے متعلق قانون کا جائزہ لینے والے کمیٹی میں ایک فریق یعنی خاتون( یادلہن) کی نمائندگی ہی نہیں رکھی گئی۔
وزارت مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کی جانب سے رواں برس 30مئی کو نکاح نامہ فارم اور چائلڈ میرج ایکٹ 1929 کا جائزہ لینے کے لئے 10رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی ،تاہم اس کمیٹی میں کوئی بھی خاتون شامل نہیں تھی۔
یہ بھی پڑھیے
پی آئی اے کا حج آپریشن شروع، حجاج کرام کی دو پروازیں وطن پہنچ گئیں
سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کا سپریم کورٹ کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار
کمیٹی کے قیام کے حوالے سے جاری کئے گئے وزارت مذہبی امور کی جانب سے جاری کئے گئے نوٹیفکیشن کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ کے فیصلوں کی تعمیل میں نکاح نامہ فارم اور چائلڈ میرج ایکٹ 1929 کا جائزہ لینے کے لیے یہ کمیٹی بنائی گئی۔ جس کے ارکان میں ڈاکٹر قبلہ ایاز، چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل۔ ڈاکٹر محمد مشتاق چیئرمین شعبہ قانون میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، پیرزادہ جنید امین، ممبر اسلامی نظریاتی کونسل۔ڈاکٹر ابوالحسن محمد شاہ الازہری، رکن اسلامی نظریاتی کونسل ۔ ڈاکٹر مفتی عبدالکریم عثمان اسٹنٹ پروفیسر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد۔
مفتی ضمیر احمد ساجد ممبر مرکزی رویت ہلال کمیٹی اسلام آباد۔ ڈاکٹر انعام اللہ، ڈائریکٹر جنرل (تحقیق)، اسلامی نظریاتی کونسل۔ غلام مجید، سینئر ریسرچ آفیسر، اسلامی نظریاتی کونسل ۔ حافظ عبدالقدوس ڈائریکٹر، وزارت مذہبی امور اور بین المذاہب ہم آہنگی کے علاوہ وزارت قانون و انصاف کے نمائندے کو بھی کمیٹی کا حصہ بنایا گیا۔
کمیٹی کے ممبران کی ذمہ داریوں میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں لڑکی کی شادی کی عمر کے مسئلے کو حل کرنے کی حد تک چائلڈ میرج ایکٹ 1929 کا جائزہ لینا، لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں نکاح نامہ فارم کا جائزہ لینا اور اسے جامع بنانے کے لئے ٹھوس تجاویز پیش کرنا شامل ہے۔
حکومت نے نکاح نامے اور بچوں کی شادی (چائلڈ میرج ایکٹ) سے متعلق قانون کا جائزہ لینے کے لیے دس رکنی کمیٹی تو بنا دی مگر اس میں کسی خاتون کو نمائندگی نہیں دی جبکہ ملکی قانون کے مطابق مرد اور خاتون کے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کا عمل شادی کہلاتا ہے مگر شادی سے متعلق قانون کا جائزہ لینے والے کمیٹی میں ایک فریق یعنی خاتون( یادلہن) کی نمائندگی ہی نہیں رکھی گئی تو اس صورت میں یہ کیسے ممکن ہے کہ جو سفارشات کمیٹی کی جانب سے مرتب کی جائیں گی اور پھر ان کی روشنی میں جو قانون سازی ہوگی وہ منصفانہ ہوگی اور جس ضرورت کے تحت اسلام آباد اور لاہور ہائیکورٹس کی جانب سے نکاح نامہ اور چائلڈ میرج ایکٹ کا جائزہ لینے کی جو ہدایت کی تھی وہ مقصد حاصل ہوگا۔کیا خواتین کی نمائندگی کے بغیر شادی سے متعلق قوانین پھر بھی متنازعہ نہیں رہیں گے۔؟.
اسلام آباد ہائی کورٹ نے رواں برس مئی میں سنائے گئے فیصلے میں وفاقی حکومت کو ہدایت کی تھی کہ کم عمری کی شادی روکنے اور شادی کی عمر متعین کرنے کے لیے قانون سازی کی جائے۔ عدالت نے ایک کیس میں 18 برس سے کم عمر میں شادی کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔
ماضی میں حکومت کی جانب سے شادی کی عمر متعین کرنے کے لیے قانون سازی پر مذہبی حلقوں کی جانب سے مزاحمت کی جاتی رہی ہے۔ تاہم پاکستان کے صوبے سندھ میں شادی کی کم سے کم عمر 18 برس کا قانون رائج ہے۔
پاکستان میں کم عمری کی شادیاں روکنے کا قانون چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 1929 کے مطابق لڑکے کی شادی کی کم سے کم عمر 18 سال جب کہ لڑکی کے لیے شادی کی کم سے کم عمر 16 سال ہے۔ موجود قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کو زیادہ سے زیادہ ایک ماہ کی قید اور ایک ہزار روپے جرمانہ ہو سکتا ہے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ 18 برس سے کم عمر لڑکی مرضی سے آزادنہ طور پر شادی بھی نہیں کرسکتی جب کہ ورثا بھی جسمانی تعلق والا کوئی معاہدہ نہیں کراسکتے، بلوغت کی عمر 18 سال ہی ہے محض جسمانی تبدیلیوں پر 18 سال سے پہلے قانونی طور پر بلوغت نہیں ہوتی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس بابر ستار نے اپنے فیصلہ میں لکھا کہ بچے کی تعریف ایک ایسے فرد کے طور پر کی جاتی ہے جس کی عمر 18 سال پوری نہ ہوئی ہو۔ قانون کے مطابق ایک بچے کو کسی کی دیکھ بھال میں رکھنا ضروری ہے،چاہے وہ والدین ہو یا سرپرست یا دیگر دیکھ بھال کرنے والے ہوں۔ اس بچے کو کسی معاہدہ میں شامل ہونے کا ازخود اختیار نہیں دیا جاسکتا۔
اٹھارہ سال سے کم عمر بچی صرف بلوغت حاصل کرنے کے باوجود ذہنی طور پراس قابل نہیں ہوتی کہ اسے شادی کا معاہدہ کرنے کا مکمل اختیار دیا جائے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ شادی کا معاہدہ ایک 18 سال سے کم عمر بچے یا بچی اور زائدالعمرفرد کے درمیان نہیں ہوسکتا، اگر ایسا معاہدہ ہوا تو یہ ایک غیر قانونی معاہدہ ہوگا اور باطل ہوگا۔عدالت نے قرار دیا کہ ایسی شادی کا معاہدہ مسلم فیملی لاز کے تحت رجسٹرڈ نہیں ہو سکتا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ ایک 18 سال سے کم عمر بچہ یا بچی اپنے والدین یا گارڈین کے زیرکفالت ہوتے ہیں، ریاست کی ذمہ داری ہے کہ بچے کے حقوق کا تحفظ کیا جائے، لیکن اگر کسی کم عمر بچے یا بچی کی شادی کے نتیجہ میں بچے پیدا ہونے کی صورت میں ایک بچے کو کسی اور بچے کی کفالت کی ذمہ داری دے دینا درست نہیں۔
جسٹس بابر ستار نے اپنے فیصلہ میں لکھا تھا کہ چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ 2018 کے مطابق کسی بھی بچے کو کسی جنسی سرگرمی میں شامل کرنے پر سیکشن 377 اے کے تحت کارروائی کی جاسکتی ہے، اگر یہ جنسی سرگرمی شادی کی صورت میں ہو تو تب بھی کم عمری کی صورت میں اس شق کا اطلاق ہوسکتا ہے۔