ڈپٹی اسپیکر ورلنگ کیس، حکومت اتحاد اور چوہدری شجاعت کی سپریم کورٹ میں فریق بننے کی درخواستیں دائر
جمعیت علماء اسلام فضل الرحمان گروپ کی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ عدالت عظمیٰ کی جانب سے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کو طلب کرکے ان کے عہدے کی تضحیک کی گئی۔

پنجاب حکومت کی حمایتی جماعتوں نے بھی ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف کیس میں فریق بننے کے لئے سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا۔ جمیعت علمائے اسلام (ف)، پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت نے عدالت عظمیٰ سے فل کورٹ بنانے کی استدعا کی ہے۔ مسلم لیگ (ق) کی جانب سے ڈپٹی اسپیکر کے فیصلے کے خلاف دائر درخواست کی سماعت سپریم کورٹ میں آج ہو رہی ہے۔
وزیراعلی پنجاب کے انتخاب کے موقع پر ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے رولنگ میں کہا تھا کہ مسلم لیگ قاف کے اراکین نے پارٹی سربراہ چودھری شجاعت حسین کے خط میں دیے گئے احکامات کی خلاف ورزی کی۔ جس میں انہیں کہا گیا تھا کہ وہ پی ٹی آئی کے امیدوار چوہدری پرویز الٰہی کو ووٹ نہ دیں مگر مسلم لیگ قاف کے دس ارکان نے پرویز الہی کو ووٹ دے کر پارٹی سربراہ کے احکامات کی خلاف ورزی کی،جس پر ڈپٹی اسپیکر نے 10 ووٹ مسترد کردیئے تھے اور مخالف امیدوار حمزہ شہباز ایک مرتبہ پھر وزیراعلی پنجاب منتخب ہوگئے تھے۔
یہ بھی پڑھیے
نون لیگی ارکان رابطے میں جب چاہیں شہباز حکومت ختم کردینگے، فواد چوہدری
رانا ثناء اللہ نے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخابات سے قبل پی ٹی آئی کو دھمکی دے دی
حکومتی اتحاد میں شامل جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن اور پاکستان پیپلز پارٹی نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف کیس میں فریق بننے کی درخواست دائر کردی۔ درخواستوں میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی گئی ہے کہ چیف جسٹس اس کیس کو سننے کے لیے موجودہ بینچ کی بجائے فل کورٹ تشکیل دیں، آئین کی شق 63 اے سے متعلق کیس نہایت اہم معاملہ ہے، اس لیے اس کیس کا فیصلہ تین رکنی بینچ نہیں کر سکتا۔
جمعیت علماء اسلام فضل الرحمان گروپ کی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ عدالت عظمیٰ کی جانب سے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کو طلب کرکے ان کے عہدے کی تضحیک کی گئی۔
پنجاب اسمبلی کے متنازع انتخابات کے نتیجے میں حمزہ شہباز کے وزیراعلی پنجاب بننے کے خلاف مسلم لیگ ق کی جانب سپریم کورٹ کی درخواست دائر کی گئی تھی جس پر سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ابتدائی سماعت میں شہباز شریف کو آج 25 جولائی تک بطور ٹرسٹی وزیراعلی کام کرنے کی اجازت دی تھی تاہم ان سے کہا گیا تھا کہ بطور وزیر اعلیٰ وہ اختیارات استعمال نہیں کر سکتے جس سے انہیں سیاسی فائدہ ہو۔
چیف جسٹس پاکستان نے اس کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس میں کہا تھا کہ بادی النظر میں ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہے۔
موجودہ وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کی جانب سے بھی سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی جس میں استدعا کی گئی کہ ان کے انتخاب سے متعلق کیس کی سماعت سپریم کورٹ کا فل بینچ کرے۔ حمزہ شہباز نے یہ بھی استدعا کی کہ آرٹیکل 63 اے کی نظرثانی کی درخواست اور الیکشن کمیشن کے خلاف منحرف ارکان کی اپیلوں کی بھی ایک ساتھ سماعت کی جائے۔
سپریم کورٹ میں وزیراعلی پنجاب کے متنازع انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت کے موقع پر سیاسی رہنماوں کی کمرہ عدالت میں داخلے پر پابندی عائد کردی گئی ہے جبکہ عدالت عظمیٰ کے گردونواح میں سیکیورٹی کے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے خلاف کیس کی سماعت سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت نمبر ایک میں ہوگی جس کے باہر بھی پولیس کی نفری تعینات کر دی گئی ہے۔
کمرہ عدالت میں صرف کیس کی فریقین ہی کو داخلے کی اجازت ہوگی جبکہ میڈیا کے سپریم کورٹ میں رجسٹرڈ بیٹ پورٹرز ہی کمرہ عدالت میں داخل ہوسکیں گے۔