فل کورٹ بینچ نہیں بنے گا، تین رکنی عدالتی بینچ ہی ڈپٹی اسپیکر رولنگ کا فیصلہ دے گا
پاکستان مسلم لیگ (ن) اور حکومتی اتحاد نے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ پر سپریم کورٹ آف پاکستان سے فل کورٹ بینچ بنانے کی درخواست کی تھی۔
سپریم کورٹ نے حکومتی اتحاد کی فل کورٹ بینچ تشکیل دینے کی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے فیصلہ سنایا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب پر ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ معاملہ کی سماعت تین رکنی بینچ ہی کرے گا۔ مقدمہ کی سماعت کل منگل کی ساڑھے گیارہ بجے ہوگی۔ عدالت عظمیٰ نے مسلم لیگ (ق) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی مقدمہ میں فریق بننے کی درخواستیں منظور کرلیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔
عدالت نے فریقین کی درخواستوں پر مختصر فیصلے میں کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے حوالے سے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ پر قانونی سوال زیر غور ہے کہ کیا پارٹی سربراہ ارکان اسمبلی کو ہدایت دے سکتا ہے یا نہیں۔
یہ بھی پڑھیے
آرمی چیف کی زیر صدارت کور کمانڈر کانفرنس میں سیکیورٹی امور پر تبادلہ خیال
غریدہ فاروقی اور سلیم صافی نے اپنے ٹوئٹس سے عدلیہ کو رگڑ کر رکھ دیا
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پرویز الہٰی کے وکیل کا موقف تھا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ عدالتی فیصلے اور آئین کے خلاف ہے جبکہ ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کے وکیل کا موقف تھا کہ پارٹی سربراہ ارکان کو ہدایت دے سکتا ہے۔
سپریم کورٹ نے فریقین کے دلائل سن کر مختصر فیصلہ جاری کرتے ہوئے فل بینچ بنانے کی تمام درخواستیں مسترد کردیں جبکہ مقدمہ کی مزید سماعت کل منگل کو دن ساڑھے گیارہ بجے ملتوی کردی ہے۔فیصلے کی تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔
اس سے قبل کیس کی سماعت کے موقع پر ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کے وکیل عرفان قادر نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کیس 10 ججوں نے سنا جبکہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب پر ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ ایک صوبے کا معاملہ ہے۔
اس سے قبل سپریم کورٹ میں مقدمے کی سماعت کے موقع پرجسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آئین ہدایت( ڈائریکشن) اور اعلان (ڈیکلریشن) کے حوالے سے واضح ہے، پارٹی سربراہ اور پارلیمانی پارٹی کا کردار الگ الگ ہے.
چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیئے کہ جو اسٹیک ہولڈرز ہیں ان سب کو سنا جائے گا۔
ڈپٹی اسپیکر کے وکیل عرفان قادر نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے استدعا کی کہ سپریم کورٹ کا فل بینچ بنایا جائے جس پر عدالت نے دریافت کیا کہ فل بینچ کن نکات پر سماعت کرے۔
عرفان قادر نے کہا کہ آئین کی دفعہ 63 اے کے حوالے سے عدالت اپنے حکم نامے کا پیرا گراف نمبر 1 اور 2 پڑھ لے جس سے تمام نقاط واضح ہوجائیں گے۔
ڈپٹی اسپیکر کے وکیل نے کہا کہ سیاسی جماعت کو ہدایات پارٹی سربراہ دیتا ہے، پارلیمانی جمہوریت میں سیاسی جماعتوں کا اہم کردار ہے۔ صدر مملکت نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا ریفرنس بھیجا، آرٹیکل 63 اے کو الگ کرکے نہیں پڑھا جاسکتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی جماعتوں کی کمزوری سے جمہوری نظام خطرے میں آسکتا ہے، پارٹی پالیسی سے انحراف نظام کے لیے کینسر کے مترادف ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہمیں بتائیں ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ میں ہمارے فیصلے کے کس حصے کا حوالہ دیا، ڈپٹی اسپیکر نے ہمارے جس پیراگراف پر انحصار کیا وہ کہاں ہے؟
حمزہ شہباز کے وکیل نے بتایا کہ ڈپٹی اسپیکر نے فیصلے کے پیراگراف نمبر تین پر انحصار کیا۔
جسٖٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آئین ڈائریکشن اور ڈیکلریشن پر واضح ہے، پارٹی سربراہ اور پارلیمانی پارٹی کا کردار الگ الگ ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جو ارکان اسمبلی میں موجود ہوتے ہیں صرف وہ پارلیمانی پارٹی کا حصہ ہوتے ہیں، سیاسی جماعت اور پارلیمانی پارٹی میں فرق ہے، کیا ڈیکلریشن اور پارلیمانی پارٹی کو ہدایات ایک ہی شخص دے سکتا ہے؟۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پارٹی ہدایت اور ڈیکلریشن دو الگ الگ چیزیں ہیں، ڈپٹی اسپیکر نے عدالتی فیصلے کے جس نقطے کا حوالہ دیا وہ بتائیں۔
وکیل حمزہ شہباز نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے پر فیصلہ ماضی کی عدالتی نظیروں کے خلاف ہے، سپریم کورٹ آرٹیکل 63 اے کے معاملے پر فل کورٹ تشکیل دے، اگر پانچ رکنی بینچ کو لگتا ہے ماضی کا عدالتی فیصلہ غلط تھا تو فل بینچ ہی فیصلہ کر سکتا ہے۔
منصور اعوان نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے، 14ویں ترمیم سے آئین میں شامل کیا گیا لیکن 18ویں ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 63 اے کی مزید وضاحت کی گئی۔ ان کا کہنا تھاکہ جسٹس شیخ عظمت سعید کے 8 رکنی فیصلے کے مطابق پارٹی سربراہ ہی سارے فیصلہ کرتا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارٹی پالیسی میں ووٹ کاسٹ کرنے سے متعلق دو الگ اصول ہیں، 18ویں ترمیم سے قبل آرٹیکل 63 اے پارٹی سربراہ کی ہدایات کی بات کرتا تھا، 18ویں ترمیم کے بعد پارٹی لیڈر کو پارلیمانی پارٹی سے بدل دیا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس عدالت میں سینئر پارلیمینٹرینز نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ پارٹی سربراہ آمر ہوسکتا ہے، اس کے کردار کو کم کرنے کے لیے پارلیمانی پارٹی کے لیڈر کو کردار بھی دیا گیا۔
چیف جسٹس نے بیرسٹر علی ظفر سے مکالمے میں کہا کہ مقدمے کے میرٹ پر دلائل نہ دیں، فل کورٹ کی تشکیل پر دلائل دیں، دوسری سائیڈ نے فل کورٹ پر دلائل دیے ہیں، آپ بتائیں فل کورٹ کیوں نہ بنایا جائے، آپ دوسری سائیڈ کی فل کورٹ کی استدعا کو کیسے مسترد کریں گے؟
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے بڑا کلیئر ہے، پارٹی سربراہ کو پارلیمنٹیرین پارٹی کی ہدایات کے مطابق ڈکلئیریشن دینی ہوتی ہے، آرٹیکل 63 اے پر عدالت پہلے ہی مفصل سماعتوں کے بعد رائے دے چکی ہے، پارلیمانی پارٹی کی ہدایت تسلیم کرنا ہی جمہوریت ہے۔ان کا موقف تھا کہ کیا تمام عدالتی کام روک کر فل کورٹ ایک ہی مقدمہ سنے؟
بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ گزشتہ 25 سال میں فل کورٹ صرف 3 یا 4 کیسز میں بنا ہے، گزشتہ سالوں میں فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا 15 مقدمات میں مسترد ہوئیں۔بحران ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ جلد فیصلہ کیا جائے، نظرثانی کی درخواستیں صرف 5 رکنی بینچ ہی سن سکتا ہے، عدالت کے سامنے بڑا سادہ مقدمہ ہے، عدالت پر ہمیں اور پوری قوم کو پورا یقین ہے۔
عدالت نے سابق صدر سپریم کورٹ بار لطیف آفریدی کو روسٹرم پر بلایا اور کہا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ بار کے کافی صدور یہاں موجود ہیں۔
ان کا کہنا تھاکہ موجودہ سیاسی صورتحال بہت گھمبیر ہے، سپریم کورٹ ایک آئینی عدالت ہے، ہمارے سابق صدور نے اجلاس کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ بار کی نظرثانی درخواست بھی زیرالتوا ہے، دستیاب ججز پر مشتمل فل کورٹ تشکیل دے کر تمام مقدمات کو یکجا کرکے سنا جائے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ذرا کیس کو سیٹ اپ تو کر لینے دیں۔
چیف جسٹس کا پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ ہوا، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کے پاس کرسی تو ہے ناں۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سر کرسی کی کوئی بات نہیں، کرسی کی پرواہ نہیں کرتا، ہم نے صبح درخواست جمع کروائی تھی اسے بھی سنا جائے۔
عدالت عظمیٰ نے فل کورٹ کی تشکیل سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے سماعت میں ڈیڑھ گھنٹے کا وقفہ کردیاتھا۔
وزیراعلی پنجاب کے انتخاب کے موقع پر ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری نے رولنگ میں کہا تھا کہ مسلم لیگ قاف کے اراکین نے پارٹی سربراہ چودھری شجاعت حسین کے خط میں دیے گئے احکامات کی خلاف ورزی کی۔جس میں انہیں کہا گیا تھا کہ وہ پی ٹی آئی کے امیدوار چوہدری پرویز الٰہی کو ووٹ نہ دیں مگر مسلم لیگ قاف کے دس ارکان نے پرویز الہی کو ووٹ دے کر پارٹی سربراہ کے احکامات کی خلاف ورزی کی،جس پر ڈپٹی اسپیکر نے 10 ووٹ مسترد کردیئے تھے اور مخالف امیدوار حمزہ شہباز ایک مرتبہ پھر وزیراعلی پنجاب منتخب ہوگئے تھے۔
حکومتی اتحاد میں شامل جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن اور پاکستان پیپلز پارٹی نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے خلاف کیس میں فریق بننے کی درخواست دائر کردی۔درخواستوں میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی گئی ہے کہ چیف جسٹس اس کیس کو سننے کے لیے موجودہ بینچ کی بجائے فل کورٹ تشکیل دیں،آئین کی شق 63 اے سے متعلق کیس نہایت اہم معاملہ ہے،اس لیے اس کیس کا فیصلہ تین رکنی بینچ اکیلے نہیں کر سکتا۔
جمعیت علماء اسلام فضل الرحمان گروپ کی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ عدالت عظمیٰ کی جانب سے ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کو طلب کرکے ان کے عہدے کی تضحیک کی گئی۔
پنجاب اسمبلی کے متنازع انتخابات کے نتیجے میں حمزہ شہباز کے وزیراعلی پنجاب بننے کے خلاف مسلم لیگ ق کی جانب سپریم کورٹ کی درخواست دائر کی گئی تھی جس پر سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ابتدائی سماعت میں شہباز شریف کو آج 25 جولائی تک بطور ٹرسٹی وزیراعلی کام کرنے کی اجازت دی تھی تاہم ان سے کہا گیا تھا کہ بطور وزیر اعلیٰ وہ اختیارات استعمال نہیں کر سکتے جس سے انہیں سیاسی فائدہ ہو۔
چیف جسٹس پاکستان نے اس کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس میں کہا تھا کہ بادی النظر میں ڈپٹی سپیکر کی رولنگ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہے۔
موجودہ وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کی جانب سے بھی سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی جس میں استدعا کی گئی کہ ان کے انتخاب سے متعلق کیس کی سماعت سپریم کورٹ کا فل بینچ کرے۔ حمزہ شہباز نے یہ بھی استدعا کی کہ آرٹیکل 63 اے کی نظرثانی کی درخواست اور الیکشن کمیشن کے خلاف منحرف ارکان کی اپیلوں کی بھی ایک ساتھ سماعت کی جائے۔