سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کو کالعدم قرار دے دیا
ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کی رولنگ کے خلاف چوہدری پرویز الہٰی کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے حمزہ شہباز کو وزارت اعلیٰ کے منصب سے فارغ کردیا۔
وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز شریف کے وزارت اعلیٰ کا معاملہ ، سپریم کورٹ آف پاکستان نے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری کی رولنگ کے خلاف چوہدری پرویز الہٰی کی درخواست کو دلائل کی روشنی میں منظور کرتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے مسلم لیگ قاف کے رہنما اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے امیدوار چوہدری پرویز الٰہی کی درخواست کی سماعت کی۔ جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ وزیراعلی پنجاب کے انتخاب کے موقع پر مسلم لیگ قاف کے دس ارکان کے ووٹ شمار نہ کئے جانے سے متعلق ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے جس کے نتیجے میں حمزہ شہباز کو وزیراعلی کے انتخاب میں فاتح قرار دیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
نواز شریف کی پاکستان واپسی کا امکان، جیل نہیں جائیں، ذرائع
پنجاب اسمبلی میں ن لیگ کا ایک اور ووٹ کم ہوگیا
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمارے سامنے سوال یہ ہے کہ کیا پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کو ہدایات جاری کر سکتا ہے یا نہیں۔قانون کے مطابق پارلیمانی پارٹی نے فیصلہ کرنا ہوتا ہے اور پارٹی سربراہ پالیسی سے انحراف پر ریفرنس بھیج سکتا ہے۔
ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری اور پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے فل کورٹ نہ بنائے جانے کے خلاف عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کر دیا گیا۔
ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کے وکیل عرفان قادر کا موقف تھا کہ وہ سپریم کورٹ میں جاری مقدمے کی کارروائی میں حصہ نہیں لیں گے اور عدالت کی جانب سے فل بینچ تشکیل نہ دینے کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست دائر کریں گے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے بھی عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ اس مقدمے کی اہمیت کے پیش نظر فل کورٹ تشکیل دیا جانا چاہیے تھا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ انہیں فل کوٹ بنانے کے حوالے سے ایک بھی قانونی نقطہ نہیں بتایا گیا۔عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کو ہدایات جاری کر سکتا ہے یا نہیں اس نقطہ پر فل بینچ نہیں بنایا جا سکتا ہم نے تمام فریقین کو قانونی نکتہ پر دلائل کے لئے وقت دیا۔مگر ہم فل کورٹ کے نقطہ پر قائل نہ ہو سکے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم پنجاب میں وزیر اعلیٰ کا معاملہ جلد نمٹانا چاہتے ہیں۔فل کورٹ کی تشکیل ستمبر کے دوسرے ہفتے تک ممکن نہیں ، ہم اس معاملے کو طول نہیں دے سکتے۔اس کیس کا فیصلہ نہ ہونے کے باعث ایک صوبے میں بحران ہے۔
چوہدری پرویز الہی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کو عدالت نے نے ہدایت کی کہ وہ قانونی سوالات پر عدالت کی معاونت کریں۔
بیرسٹر علی ظفر ایڈوکیٹ کا دلائل دیتے ہوئے کہنا تھا کہ کہ یہ معاملہ صرف پارٹی سربراہ کی ڈائریکشن کا ہے اٹھارویں ترمیم میں پارٹی ہیڈ کو منحرف ارکان کے خلاف کارروائی کا اختیار دیا گیا ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا کہ وہ بھی عدالت کی معاونت کرنا چاہتے ہیں۔عدالت عظمیٰ نے کہا کہ فیصلے میں کوئی غلطی نہ ہوجائے اس لئے سب کو معاونت کی کھلی دعوت ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے وکیل امتیاز صدیقی ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پارٹی سربراہ کی ہدایت بروقت آنی چاہیے۔وزیراعلی پنجاب کے انتخاب کے موقع پر وفاقی حکومت تمام ذرائع بروئے کار لائی ،پارٹی کے سربراہ کیسے لاہور میں جمع ہوئے یہ سب کے سامنے ہے۔
کیس کی سماعت میں بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پارٹی سربراہ کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں ،وہ پارلیمانی پارٹی کو ہدایت دے سکتا ہے لیکن ڈکٹیٹ نہیں کرسکتا، ووٹ کا فیصلہ پارلیمانی پارٹی نے کرنا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اختیارات پارلیمانی سربراہ کے ذریعے آتے ہیں، پارٹی سربراہ کا کردار بہت اہم ہوتا ہے لیکن ان کا سربراہ کے لیے ہدایات جاری کرتا ہے۔