محرم الحرام کی آمد، مذہبی ہم آہنگی اور بھائی چارے کے لیے 20 نکاتی ضابطہ اخلاق جاری

ضابطہ اخلاق کے مطابق ہر فرد ریاست کے  خلاف لسانی، علاقائی، مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصبات کی بنیاد پر چلنے  والی تحریکوں  کا حصہ بننے  سے  گریز کرے۔  ریاست ایسے  گروپس کے  خلاف سخت کارروائی کرے  گی۔

محرم الحرام کی آمد کے سلسلے اسلامی نظریاتی کونسل نے تمام مکاتب فکر کے علماء کی مشاورت سے ضابطہ اخلاق کا اجراء کردیا ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے زیرِ سرپرستی 2020ء کے اجلاس میں تمام مسالک کے جید اور نمائندہ علماء و مشائخ کے منطور کردہ محرم الحرام کے لیے ضابطہ اخلاق “Muharram Code of Conduct 2022” کی توثیق کی اور اس کے نفاذ پر زور دیا۔

ضابطۂ اخلاق کے مطابق:

’’1۔        تمام شہریوں  کا یہ فرض ہے  کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے  دستور کی بالادستی کو تسلیم کریں،  ریاست پاکستان کی عزت و تکریم بجا لائیں  اور ساتھ ہی ساتھ ہر حال میں  ریاست کے  ساتھ اپنی وفاداری کے  حلف کو نبھائیں۔

یہ بھی پڑھیے

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کی واپسی ، حکومت اور عمران خان ایک پیج پر

میرے سینے میں راز دفن ہیں چاہوں تو بتاسکتا ہوں ، وزیراعظم کا متعلقہ حلقوں کو پیغام

2۔         اسلامی جمہوریہ پاکستان کے  تمام شہری بنیادی حقوق کی عزت و تکریم کو یقینی بنائیں  جیسا کہ دستور پاکستان میں  مندرج ہیں،  بشمول قانون کی نظر میں  مساوات، سماجی اور سیاسی حقوق، اظہار خیال، عقیدہ، عبادت اور اجتماع کی آزادی۔

3۔         دستور پاکستان کی اسلامی ساخت اور قوانینِ پاکستان کا تحفظ کیا جائے  گا۔ پاکستان کے  شہریوں  کو یہ حق حاصل ہے  کہ شریعت کے  نفاذ کے  لیے  پرامن جدوجہد کریں۔

4۔         اسلام کے  نفاذ کے  نام پر جبر کا استعمال، ریاست کے  خلاف مسلح کارروائی، تشدد اور انتشار کی تمام صورتیں  بغاوت سمجھی جائیں  گی اور یہ شریعت کے  مطابق حرام ہیں  اور کسی فرد کو یہ حق نہیں  کہ وہ حکومتی، ملٹری یا دیگر سیکورٹی ایجنسیوں  کے  افراد کو کافر قرار دے۔

5۔         علماء، مشائخ اور زندگی کے  ہر شعبے  سے  متعلقہ افراد کو چاہیے  کہ وہ ریاست اور ریاستی اداروں  خاص طورپر قانون نافذ کرنے  والے  اداروں  اور سکیورٹی اداروں  کی بھرپور حمایت کریں  تاکہ معاشرے  میں  سے  تشدد کو جڑ سے  اکھاڑ دیا جائے۔

6۔         ہر فرد ریاست کے  خلاف لسانی، علاقائی، مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصبات کی بنیاد پر چلنے  والی تحریکوں  کا حصہ بننے  سے  گریز کرے۔  ریاست ایسے  گروپس کے  خلاف سخت کارروائی کرے  گی۔

7۔         کوئی شخص فرقہ وارانہ نفرت، مسلح فرقہ وارانہ تنازعہ اور جبراً اپنے  نظریات کسی دوسرے  پر مسلط نہ کرے  کیونکہ یہ شریعت کی کھلی خلاف ورزی ہے  اور فساد فی الارض ہے۔

8۔         کوئی نجی یا سرکاری یا مذہبی تعلیمی ادارہ عسکریت کی تبلیغ نہ کرے،  تربیت نہ دے  اور نفرت انگیز انتہاپسندی اور تشدد کو فروغ نہ دے۔  ایسی سرگرمیوں  میں  ملوث افراد اور اداروں  کے  خلاف قانون کے  مطابق ثبوتوں  اور شواہد کی بنیاد پر سخت کارروائی کی جائے  گی۔

9۔         انتہا پسندی، فرقہ واریت اور تشدد کو فروغ دینے  والوں  خواہ وہ کسی بھی تنظیم یا عقیدے  سے  ہوں  کے  خلاف سخت انتظامی اور تعزیری اقدامات کیے  جائیں  گے۔

10۔       اسلام کے  تمام مکاتب فکر کا یہ حق ہے  کہ وہ اپنے  مسالک اور عقائد کی تبلیغ کریں،  مگر کسی کو کسی شخص، ادارے  یا فرقہ کے  خلاف نفرت انگیزی اور اہانت پر مبنی جملوں  یا بے  بنیاد الزامات لگانے  کی اجازت نہیں  ہوگی۔

11۔       کوئی شخص حضرت محمدصلی اللہ علیہ و سلم یا دیگر انبیائے  کرامؑ یا امہات المؤمنین یا اہلِ بیت یا خلفاء راشدین یا صحابہ کرامؓ کے  خلاف توہین آمیز جملے  نہیں  کہے  گا۔ کوئی فرد یا گروپ قانون کو اپنے  ہاتھ میں  نہیں  لے  گا یا توہینِ رسالت کے  کیسز کی تفتیش یا استغاثہ میں  رکاوٹ نہیں  بنے  گا۔

12۔       کوئی شخص دوسروں  پر کفر کا الزام نہیں  لگائے  گا اور صرف مذہبی سکالر ہی شرعی اصولوں  کی وضاحت مذہبی نظریے  کی اساس پر کرے  گا۔

13۔       کوئی شخص کسی قسم کی دہشت گردی کو فروغ نہیں  دے  گا، دہشت گردوں  کی ذہنی و جسمانی ٹریننگ نہیں  کرے  گا، ان کو بھرتی نہیں  کرے  گا، کہیں  بھی دہشت گرد سرگرمیوں  میں  ملوث نہیں  ہوگا۔

14۔       سرکاری، نجی اور مذہبی تعلیمی اداروں  کے  نصاب میں  اختلافِ رائے  کے  آداب کو شامل کیا جائے  گا کیونکہ فقہی اور نظریاتی اختلافات پر تحقیق کرنے  کے  لیے  سب سے  موزوں  جگہ صرف تعلیمی ادارے  ہوتے  ہیں۔

15۔       تمام مسلم شہری اور سرکاری حکام اپنے  فرائض کی انجام دہی اسلامی تعلیمات اور دستور پاکستان کی روشنی میں  کریں  گے۔

16۔       بزرگ شہریوں،  خواتین، بچوں،  خنثیٰ اور دیگر تمام کم مستفیض افراد کے  حقوق کے  حوالے  سے  اسلامی تعلیمات ہر سطح پر دی جائیں  گی۔

17۔       پاکستان کے  غیر مسلم شہریوں  کو یہ حق حاصل ہے  کہ وہ اپنے  مذہب اور مذہبی رسومات کی ادائیگی اپنے  اپنے  مذہبی عقائد کے  مطابق کریں۔

18۔       اسلام خواتین کے  حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔  کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں  کہ وہ خواتین سے  ان کے  ووٹ اور تعلیم کا حق چھینے  اور ان کے  تعلیمی اداروں  کو نقصان پہنچائے۔  ہر فرد غیرت کے  نام پر قتل، قرآن پاک سے  شادی اور وٹہ سٹہ سے  باز رہے،  کیونکہ یہ اسلام کی رو سے  ممنوع ہیں۔

19۔       کوئی شخص مساجد،  منبر و محراب، مجالس اور امام بارگاہوں  میں  نفرت انگیزی پرمبنی تقاریر نہیں  کرے  گا یا فرقہ وارانہ موضوعات کے  حوالے  سے  اخبارات، ٹی وی یا سوشل میڈیا پر متنازعہ گفتگو نہیں  کرے  گا۔

20۔       آزادی اظہار اسلام اور ملکی قوانین کے  ماتحت ہے،  اس لیے  میڈیا پر ایسا کوئی پروگرام نہ چلایا جائے  جو فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے  کا سبب بنے  اور پاکستان کی اسلامی شناخت کو مجروح کرے۔‘‘

اسلامی نظریاتی کونسل کے زیر اہتمام پاکستان کے جید اور نمائندہ علماء کرام کا اجتماع ہوا۔ اس علماء اجتماع میں  مفتی عبدالشکور، وفاقی وزیر برائے مذہبی امور،  ڈاکٹر قبلہ ایاز، چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل،  حافظ طاہر محمود اشرفی، چیئرمین پاکستان علماء کونسل،  مولانا مفتی عبدالرحیم،  مولانا عبدالخبیر آزاد،  علامہ امین شہیدی،  علامہ عارف واحدی،  علامہ افتخار حسین نقوی،پیر امین الحسنات شاہ،  پیر سید علی رضا بخاری،  ڈاکٹر راغب حسین نعیمی،  پیر خالد سلطان باہو،   علامہ ضیاء اللہ شاہ بخاری،  مولانا محمد یاسین ظفر،  مولانا حامد الحق حقانی،  مولانا حکیم مظہر،  مولانا محمد احمد لدھیانوی،  مولانا اورنگزیب فاروقی،  مولانا معاویہ اعظم طارق،  مولانا فضل الرحمٰن خلیل،  شیخ انور علی نجفی،  علامہ افضل حیدری،  علامہ شبیر حسین میثمی،  علامہ ناصر عباس شیرازی،    پیرزادہ محمد امین،  شہزادہ حافظ حامد رضا،  پیر حسان حسیب الرحمٰن،  شہزادہ غلام نظام الدین سیالوی  اور جامعۃ العروۃ الوثقی لاہور کے نمائندگان نے شرکت کی۔

متعلقہ تحاریر