کراچی سے خیبر تک انتہاپسندی ایک مرتبہ پھر زور پکڑنے لگی

سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے وقت پر انتہاپسندی کے واقعات کو روکنے کی کوشش نہ کی تو سیالکوٹ واقعے کی طرح متوقع پیش آنے واقعات بھی ملکی بدنامی کا باعث بن سکتے ہیں۔

کراچی سے لے کر خیبر تک ایک مرتبہ پھر انتہا پسندی دیکھنے میں آرہی ہے ، حیدرآباد میں گزشتہ روز ہندو خاکروب کے خلف توہین مذمت کا مقدمہ درج کرلیا گیا ، پشاور میں سکھ کمیونٹی نے زبردستی مذہب تبدیلی کرانے خلاف احتجاج کیا جبکہ بنوں میں علماء نے فیملی پارک کو بند کرنے کا مطالبہ کردیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق حیدر آباد پولیس نے توہین مذہب کے الزام میں ایک ہندو خاکروب کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔

ہندو خاکروب کے خلاف توہین مذمب کا مقدمہ 

بلال نامی شخص کی مدعیت میں درج کیے گئے مقدمے کے مطابق ایک ہندو خاکروب نے رابی شاپنگ سینٹر میں قرآن پاک کو مبینہ طور پر جلا دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

افغانستان سے متعلق وزیر داخلہ کا بیان ، رانا ثناء کو لینے کے دینے پڑ گئے

جنسی زیادتی سے شہباز گل کی بدنامی کیسے ہوئی؟ غریدہ فاروقی سے سوال

پولیس نے رابی سینٹر پر چھاپہ مار کر کے خاکروب اشوک کمار کو گرفتار کرکے مقدمہ درج کرلیا ہے۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہیں لوگوں کی بڑی تعداد ہجوم کی صورت رابی سینٹر کے باہر پہنچ گئی ، اور انہوں نے سیڑیاں لگا کر سینٹر کے اندر جانے کی کوشش کی ، تاہم پولیس نے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ کرکے ہجوم کر منتشر کردیا۔

A case has been registered against Hindu Khakrob

واقعے کے بعد شہر بھر کشیدیگی پائی جاتی ہے۔

پشاور میں سکھ برادری کا احتجاج

ادھر پشاور میں سکھ برادری کی لڑکی کا مذہب زبردستی تبدیل کرانے اور شادی کا معاملہ سامنے آیا ہے ، جس کے خلاف سکھوں نے زبردست احتجاج کیا ہے۔

احتجاج کرنے والی سکھ برادری کا کہنا ہے کہ ہماری بچیوں کا محبت کے جال میں پھنسا کر اور پھر مذہب تبدیل کروا کر شادی کرلی جاتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق سکھ برادری کی ٹیچر دینا کور کو ہفتے کے روز مبینہ طور پر اغوا کر لیا گیا تھا۔ اتوار کو دینا کور کے گھر والوں کو بتایا گیا کہ دینا کی شادی ہو گئی ہے۔

واقعے کے بعد لواحقین تھانے پہنچ گئے، اہل خانہ کا کہنا تھا کہ مقامی پولیس نے ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کردیا اور سکھ برادری کو خاموش رہنے کو کہا۔

بنوں میں فیملی پارک کے خلاف احتجاج

دوسری جانب گزشتہ سینکڑوں مقامی علماء اور ان کے حامیوں نے ضلع بنوں میں فیملی پارک کے خلاف احتجاج کیا اور حکام سے اسے بند کرنے کا مطالبہ کیا۔

مظاہرین کا کہنا تھا کہ 14 اگست کو ہزاروں جوڑوں نے پارک کا دورہ کیا جو کہ مقامی روایات کے خلاف ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسے پارکوں سے فحاشی کو فروغ ملتا ہے۔

فیملی پارک بنوں کینٹ میں قائم کیا گیا تھا اور اسے ایک سال قبل عام لوگوں کے لیے کھول دیا گیا تھا، تاہم مذہبی حلقوں کی جانب سے حکومتی فیصلے پر سخت تنقید کی گئی تھی۔

یوم آزادی پر سینکڑوں جوڑوں نے پارک کا دورہ کیا تھا جس پر مقامی علماء نے ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔

اتوار کو دینی مدارس کے طلباء نے فیملی پارک کے ساتھ ساتھ بنوں پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے حکام کو خبردار کیا کہ وہ پارک کو بند کر دیں ورنہ نتائج کے ذمہ دار وہ خود ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ بنوں میں تفریح ​​کی آڑ میں کسی بھی قسم کی فحاشی کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور ضلع میں ایسے پارکوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

سماجی حلقوں کا کہنا ہے سیالکوٹ واقعے کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے اگر حکمرانوں نے وقت پر ہوش کے ناخن نہ لیے تو ملک میں پھر سے اٹھنے والی انتہاپسندی کی لہر کو روکنا مشکل ہو جائے گا اور اس کے نتائج بین الاقوامی سطح پر ملکی بدنامی کے باعث بنیں گے۔

متعلقہ تحاریر