شہریوں کو لاپتا کرنا آئین توڑنے کے مترادف ہے،چیف جسٹس کے لاپتا افراد کیس میں ریمارکس

وزیراعظم شہباز شریف نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو لاپتا افراد کی بازیابی کی یقین دہانی کرا دی۔

وزیراعظم شہباز شریف نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوکر یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ لاپتا افراد کی بازیابی کے لئے کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ شہریوں کو لاپتا کرنا آئین توڑنے کے مترادف ہے، وزیراعظم صاحب آپ کو اس لیے بلایا کہ ریاست سمجھ سکے ،یہ کتنا بڑا ایشو ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مدثر نارو اور دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے دائر درخواستوں کی سماعت کی۔اس موقع پر وزیر اعظم شہباز شریف نے پیش ہوکر معاملے کے حل کی یقین دہانی کرا دی۔وفاقی وزیر قانون،وزیر داخلہ اور اٹارنی جنرل بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

یہ بھی پڑھیے

سیکرٹری جنرل یو این  کی سیلاب متاثرین سے اظہارِ یکجہتی کیلئے اسلام آباد آمد

اسلام آباد ہائیکورٹ سے این اے 246 کی نشست خالی قرار دینے کا نوٹی فیکیشن معطل

چیف جسٹس کا ریمارکس دیتے ہوئے کہنا تھا کہ جبری گمشدگیاں آئین سے انحراف ہیں، آپ اس ملک کے وزیراعظم ہیں ملک کی سلامتی آپ کے ہاتھ میں ہے، یہ عدالت آپ پر اعتماد کرتی ہے، آپ لاپتہ افراد کے مسلہ کا حل بتا دیں، ایک چھوٹا بچہ ادھر آتا ہے اس کو یہ عدالت کیا جواب دے، اس وقت کے وزیر اعظم سے بھی بچے کی ملاقات ہوئی، یہ عدالت جبری گمشدگیوں کا ذمہ دار کسے ٹھہرائے۔؟

اس پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ یہ سب  مسائل حل کرنا ان کی ڈیوٹی ہے۔

چیف جسٹس نے وزیر اعظم سے مکالمہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ حکمرانی کے بہت مسائل ہیں اور وہ تب ہی ختم ہوں گے جب آئین بحال ہوگا، زیادہ تر قانون نافذ کرنے والے ادارے وزارت داخلہ کے ماتحت ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ وہ اس معاملے پر کوئی عذر پیش نہیں کریں گے، بچے نے کہا وزیر اعظم میرے ابو کو مجھ سے ملا دیں، یہ جملہ میرے لیے بہت تکلیف دہ ہے، میں یقین دلاتا ہوں میں پوری کوشش کروں گا۔

شہباز شریف نے کہا کہ وہ اس ملک کی عدالتوں کو جوابدہ ہیں، انہوں نے اپنے رب کو بھی جواب دینا ہے، وہ یہاں الزام تراشی والی گیم کھیلنے نہیں آئے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ اس ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں، لاپتہ افراد کے معاملے پر ریاست کا وہ رسپانس نہیں آرہا جو آنا چاہیے تھا۔ایک چیف ایگزیکٹو نے اس ملک میں 9 سال حکمرانی کی ہے، انہوں نے اپنی کتاب میں فخریہ لکھا کہ اپنے لوگوں کو بیرون ملک فروخت کیا، یہ عدالت تفتیشی ایجنسی نہیں ہے، بہت دفعہ عدالت نے یہ معاملہ وفاقی کابینہ کو بھیجا، کابینہ نے کوئی ایسا رسپانس نہیں دیا جو آنا چاہیے تھا۔

عدالت عالیہ نے کہا کہ بلوچ طلبہ کے تحفظات سامنے آرہے ہیں، ایسا تاثر نہیں ملناچاہیے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے شہریوں کو اٹھائیں، یہ تاثر ہماری قومی سلامتی کو متاثر کرتا ہے۔

سیاسی قیادت نے لاپتہ افراد کے مسئلے کو حل کرنا ہے، لوگوں کو لاپتہ کرنا تشدد کی سب سے بڑی قسم ہے، عدالت کے پاس کوئی اور راستہ نہیں کہ صرف ایگزیکٹو سے پوچھے۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ حکومت نے کابینہ کمیٹی تشکیل دی ہے جس کے 6 اجلاس ہو چکے ہیں، میں اپنے عوام کو بھی جوابدہ ہوں، ناقابل تردید ثبوت عدالت کے سامنے رکھوں گا، حقائق خود بولتے ہیں، میں بہت سادہ آدمی ہوں اللہ مجھے معاف کرے، لاپتہ افراد کمیٹی 6 اجلاس کرچکی، لاپتہ افراد کمیٹی کے ہر اجلاس کی نگرانی کروں گا اور عدالت میں رپورٹ پیش کروں گا، رپورٹ کوئی کہانی نہیں ہوگی، بلکہ حقائق پر مبنی ہوگی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد سے دو بھائی غائب ہوئے آج تک ان کا پتا نہیں چلا۔

جس پر شہباز شریف نے جواب دیا کہ لاپتہ افراد کے کیسز میں عدالت کو ہمارا رویہ نظر آئے گا۔ یہ تو نہیں کہتا کہ سارے لاپتہ افراد بازیاب ہوں گے لیکن اس معاملے پر کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے، ڈکٹیٹر کی پالیسیوں کا میں اور میرا بھائی بھی نشانہ بنا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سابق سربراہ نے تسلیم کیا کہ شہریوں کو لاپتا کرنا ریاستی پالیسی تھی، آئین کے مطابق کوئی بھی شہری لاپتا ہو تو ریاست ذمہ دار ہوتی ہے۔لاپتہ افراد کے پرانے کیسز پر لواحقین کو مطمئن کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، آئندہ کسی شخص کو لاپتہ نہیں ہونا چاہیے، تلاش کرنا عدالت کا نہیں ریاست کا کام ہے، ریاست کے پاس ایجنسیز اور دیگر ذرائع ہیں، جائیں اور تلاش کریں۔

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ہمیں 2 ماہ کا وقت چاہیے، یہ کام 2 دن میں نہیں ہو سکتا، اس عدالت کی نگرانی موجود رہے تو شاید ہم کسی حل کو پہنچ جائیں گے، جب یہ کیس چل رہا ہے تو ہمیں بھی احساس ہے کہ یہاں جواب دینا ہے۔

فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پارلیمان نے اپنا کام 2015 میں مکمل کر لیا تھا، پارلیمان کا خیال تھا کہ اس کے پیچھے انٹیلی جنس ایجنسیاں ہیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا انٹیلی جنس ایجنسیاں کس کے ماتحت ہیں؟ کوئی چیف ایگزیکٹو خود کو بے بس ہونے کا بہانہ نہیں بناسکتا، یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس عدالت میں چیزیں خراب ہو رہی ہیں لیکن رجسٹرار ذمہ دار ہے، اگر آپ یہ جواز دے رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ یہاں ریاست کے اندر ریاست ہے۔

وزیر قانون نے جواب دیا کہ کرمنل جسٹس سسٹم میں لا ریفارمز لانے ہیں، ہمیں 8 سے 10 ہفتے دیں تاکہ ہم اس پر کام مکمل کرلیں۔

درخواست گزاروں کی اجازت پر عدالت نے وزیر قانون کو 2 ماہ کا وقت دیتے ہوئے کیس کی سماعت 14 نومبر تک ملتوی کردی۔

وزیراعظم شہباز شریف نے کمرہ عدالت میں لاپتہ صحافی مدثر نارو کے کم سن بیٹے سے ملاقات کی،وزیر اعظم کی آمد کے موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے اطراف کے تمام راستے بند کردیے گئے جبکہ کمرہ عدالت میں غیر متعلقہ افراد کا داخلہ بھی ممنوع قرار دے دیا گیا۔لاپتہ افراد کے کیس کے موقع پر دیگر تمام کیسز کی کاز لسٹ منسوخ کردی گئی۔

متعلقہ تحاریر