پاکستان اسٹیل ملز چوری کیس: متعدد خطوط کے باوجود ایف آئی اے کارروائی سے گریزاں
پی ڈبلیو یو کی جانب سے وفاقی حکام کو لکھے گئے متعدد خطوط کے باوجود ایف آئی اے نے پی ایس ایم چوری کیس کی تحقیقات میں کوئی پیش رفت نہیں کی۔

پیپلز ورکرز یونین کی جانب وفاقی حکومت کو متعدد شکایتی خطوط بھیجے جانے کے باوجود وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے سرکاری ملکیت والی ادارے پاکستان اسٹیل ملز (PSM) میں 10 ارب روپے کی چوری کیس کی تحقیقات میں کوئی پیش رفت نہیں کی۔
یکم جولائی کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے وزارت صنعت اور ایف آئی اے کو پاکستان اسٹیل ملز چوری کیس میں تحقیقات شروع کرنے اور جامع رپورٹ تیار کرکے سات دن میں جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
ایم کیوایم کارکنوں کی لاشیں برآمد، وزیراعلیٰ سندھ اور پیپلزپارٹی نے چپ کا روزہ رکھ لیا
شہباز گل کی ضمانت بعداز گرفتاری اسلام آباد ہائی کورٹ سے منظور
پیپلز ورکرز یونین کی جانب سے پی ایس ایم میں چوری کی رپورٹ کرتے ہوئے حکومت پاکستان کو خط لکھا تھا اور مطالبہ کی تھا کہ حکومت پاکستان اسٹیل ملز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز اور انتظامیہ کے خلاف سوموٹو ایکشن لے۔
خط میں اپیل کی گئی تھی کہ حکومت ایف آئی اے کے ذریعے تحقیقات کرائے کہ کس طرح سے 2018 سے 2022 تک قومی خزانے کو 284 ارب روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔
بعد ازاں رواں سال 18 جولائی کو وزارت صنعت نے ایف آئی اے کو مبینہ چوری کے واقعات کی فوری انکوائری شروع کرنے کے لیے خط لکھا تاکہ اصل ملزمان کا پتہ لگایا جا سکے۔
خط کے متن کے مطابق "پاکستان اسٹیل ملز (PSM) کے انجینیئر عبدالرحمان اسسٹنٹ ایکسین نے ایک درخواست چیف ایگزیکٹو آفیسر پی ایس ایم کے گوشگزار کرائی تھی کہ پی ایس ایم میں چوری کی متعدد وارداتیں ہوچکی ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا ہے کہ پی ایس ایم انتظامیہ کے اعلیٰ افسران چوری کی ان وارداتوں میں ملوث ہیں۔ انہوں نے اپنے الزام میں دعویٰ کیا تھا کہ مین پلانٹ میں چوری سیکورٹی ڈیپارٹمنٹ کی ملی بھگت کے بغیر ناممکن ہے۔
درخواست گزار انجینیئر عبدالرحمن اسسٹنٹ ایکسین کے مطابق چوری شدہ مواد کی مالیت 10 ارب روپے سے زیادہ کی ہے۔
انہوں نے آگاہ کیا کہ ان کے پاس کافی شواہد موجود ہیں کہ پی ایس ایم کے افسران چوری کے ان واقعات میں ملوث ہیں اور وہ ثبوت ایف آئی اے کے حوالے کریں گے۔
انہوں نے مزید لکھا ہے کہ پاکستان اسٹیل ملز کی انتظامیہ کی جانب سے ایک انکوائری شروع کی گئی تھی جو تاحال جاری ہے۔ تاہم ان تحقیقات میں ادارے کی شفافیت کو چیلنج کیا گیا تھا۔
اس لیے حکومت وقت سے درخواست کی جاتی ہے کہ صاف اور شفاف تحقیقات کی جائیں ، اور ان کیسز کو ایف آئی اے کے پاس بھیجا جائے۔
20 جولائی کو پی اے سی نے پی ایس ایم چوری کیس کی انکوائری پر پیش رفت کے لیے ایک بار پھر قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کو خط لکھا۔
زیردستخطی نے اپنے خط میں اپنے یکم جولائی 2022 میں لکھے گئے دوسرے خط کا حوالہ بھی دیا ہے۔ خط میں لکھا گیا ہے کہ انہیں رپورٹ کا ابھی تک انتظار ہے۔
اس لیے ایک بار پھر قومی اسمبلی کے سیکریٹریٹ سے درخواست کی جاتی ہے کہ اسے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سامنے ترجیحی بنیادوں پر رکھا جائے اور تحقیقات کا مطالبہ کیا جائے۔
تاہم ایف آئی اے نے ملزمان کے خلاف تاحال کوئی کارروائی نہیں کی۔
ذرائع نے نیوز 360 کو بتایا کہ پی ایس ایم چوری کی وارداتوں میں ملوث ملزمان میں ایک بڑے عہدے کے افسر بھی شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکام ابھی تک PSM چوری کیس میں مجرموں کے خلاف کارروائی کرنے سے گریزاں ہے جن کی وجہ سے ملز کو بھاری مالی نقصان ہوا۔