ایون فیلڈ کیس: اسلام آباد ہائیکورٹ نے مریم نواز کے خلاف نیب سے ثبوت طلب کرلیے
اسلام آباد ہائی کورٹ نے قومی احتساب بیورو سے پوچھا مریم نواز نے کس طرح جائیداد خریدنے میں نواز شریف کی معاونت کی؟عدالت کو ثبوت فراہم کیے جائیں تاکہ فیصلے میں تمام چیزیں واضح ہوں ، نیب پراسیکیوٹر کی درخواست پر مقدمے کی مزید سماعت 29 ستمبر تک ملتوی کردی گئی
اسلام آباد ہائی کورٹ نے قومی احتساب بیورو(نیب) سے ایون فیلڈ کیس میں نوازشریف کا جائیداد خریدنے والی کمپنیوں سے تعلق اور رقم کی ادائیگی سمیت دیگر ثبوت طلب کرلیے ہیں ۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل ڈویژن بینچ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کے خلاف مسلم لیگ نواز کی رہنما مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی اپیلوں کی سماعت کی۔
یہ بھی پڑھیے
ایون فیلڈ ریفرنس:3مرتبہ التوالینے والی مریم نواز کا نیب پر التوا کاالزام
مسلم لیگ نواز کے رہنما مریم نواز اپنے وکیل کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئیں۔عدالت عالیہ نے مریم نواز کے وکیل امجد پرویز سے کہا کہ آپ دلائل مکمل کر چکے ہیں، اب نیب کی باری ہے۔
نیب پراسیکیوٹرعثمان چیمہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت عظمیٰ نے فیصلہ میں کہا تھا کہ نواز شریف کوشفاف ٹرائل کا موقع ملنے کے بعد سزا سنائی گئی جبکہ اب نہ ملزم عدالت میں ہے نہ انکی اپیل موجود ہے ۔
نیب کے پراسیکیوٹر نے نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے کا عدالتی فیصلہ پڑھا جس میں کہا گیا تھا کہ مسلسل غیر حاضری پر عدالت کے پاس اپیل خارج کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
پراسیکیوٹر نے کہا کہ عدالتی حکم کے مطابق وہ سرینڈر کریں یا پکڑے جائیں تو دوبارہ اپیل دائر کرسکتے ہیں۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ نواز شریف کی اپیل ہمارے سامنے نہیں تو یہ مطلب نہیں کہ ان پر فردِ جرم ٹھیک ثابت ہو گئی۔
عدالت نے قرار دیا کہ ان کے خلاف اپیل میرٹ پر نہیں عدم حاضری پر خارج کی گئی تھی۔نیب پراسیکیوٹرنے کہا کہ مریم نواز نے آمدن سے زائد اثاثے بنانے میں نوازشریف کو معاونت فراہم کی۔سپریم کورٹ کے حکم پر ان کے خلاف کیسز درج کیے گئے۔
عدالت عالیہ نے دریافت کیا کہ کیا جے آئی ٹی کے بعد نیب نے مزید تفتیش کی؟جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ نیب نے بھی آزادانہ تفتیش کی، ملزمان کو کال اپ نوٹسز بھجوائے گئے تھے۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ نیب نے بتانا ہے کہ مریم نواز نے کس طرح جائیداد خریدنے میں نواز شریف کی معاونت کی؟ ہم نے ایک فیصلہ لکھنا ہے تو ہمیں سب چیزوں میں واضح ہونا چاہیے،نیب ہمیں بتائے کہ یہ اپارٹمنٹس کیسے خریدے گئے؟۔
نیب کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ آف شورکمپنیوں نیلسن اور نیسکول جو برٹش ورجن آئی لینڈ کے پاس رجسٹرڈ ہیں، نیلسن اور نیسکول نے 1993ء-1995ء اور 1996ء میں اپارٹمنٹس خریدے۔مریم نواز نے 2006ء میں مدد اور معاونت کی۔
عدالت عالیہ نے کہا کہ نیب کا موقف ہے کہ نواز شریف نے1993ء میں اثاثے خریدے اور چھپائے، پھر تو نیب نے شواہد سے ثابت کرنا ہے کہ مریم نواز نے اپنے والد کی مدد کیسے کی؟۔
یہ بھی پڑھیے
کیا اپوزیشن ایون فیلڈ سے متعلق ٹرانسپرنسی برطانیہ کی رپورٹ قبول کریگی؟
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ نیب نے پہلے یہ ثابت کرنا ہے کہ جس جائیداد کا ذکر کر رہے ہیں وہ نوازشریف کی ہی ملکیت ہے اور انہوں نے ہی یہ فلیٹ اور جائیداد خریدی تھی،پھر دیگر افراد پر ان کی معاونت کا الزام آئے گا۔
عدالت نے کہا کہ ہم مفروضے پر نہیں جا سکتے بلکہ حقائق کو دیکھنا ہے، آپ نے ٹرائل کورٹ میں یہ ثابت کیا ہے تو وہ بتائیں اور ثابت کریں کہ کہ یہ جائیداد نواز شریف نے ہی خریدی تھیں۔
نیب پراسیکیوٹر کا موقف تھا کہ نواز شریف اور ان کے بچے ان ہی فلیٹوں میں رہ رہے ہیں جن کی خریداری کا ان پر الزام ہے جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ عوامی معلومات کی بنیاد پرکسی بات کا آپ پر بوجھ شفٹ تو نہیں ہو جاتا۔نئے ڈاکومنٹس سے ملکیت ثابت کرے۔
مریم نواز کے وکیل نے بتایا کہ نواز شریف نے کسی بھی فورم پر نہیں کہا کہ جائیداد ان کی ہے۔عدالت نے نیب سے دریافت کیا کہ کیا اپارٹمنٹس خریدنے کے لیے ادائیگی نواز شریف نے کی؟۔نواز شریف کا کمپنیوں کے ساتھ تعلق ثابت کریں۔
عدالت نے کہا کہ کمپنیوں کا فلیٹس کے ساتھ تعلق ثابت کریں، فلیٹس 1993ء میں خریدنا ثابت کریں، پھر مریم نواز کا فلیٹس سے تعلق ثابت کریں۔نیب پراسیکیوٹر کی درخواست پر مقدمے کی مزید سماعت 29 ستمبر تک ملتوی کردی گئی۔