اٹک جیل جنسی ہراسگی اور زنا بلجبر کا مرکز بن گئی

پی آئی سی کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ قیدیوں سے ملنے کے لیے آنے والی خواتین کے ساتھ جیل عملہ زبردستی زنابلجبر کرتا ہے جبکہ متعدد خواتین کو ہراسگی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

پراونشل انٹیلی جنس سینٹر (پی آئی سی) نے ایک رپورٹ میں اٹک ڈسٹرکٹ جیل کے کچھ ملازمین پر قیدیوں سے ملنے آنے والی خواتین کی جانب سے جنسی زیادتی اور ہراساں کرنے کے الزامات لگائے گئے ہیں۔

پاکستان کے معروف انگریزی روزنامچے ڈان نے اپنی خبر میں اس بات کا بھی انکشاف کیا ہے کہ اٹک جیل کے احاطے میں طاقتور مافیا کی موجودگی کی وجہ سے منشیات کا استعمال بڑے پیمانے پر جاری ہے۔

یہ بھی پڑھیے

بانی ایم کیو ایم نے پھر معافی مانگ لی، سیاست میں واپسی کے خواہشمند

عمران خان کو ریلیف دے کر عدلیہ نے بہت بڑی غلطی کی، مریم نواز

ڈان اخبار کے مطابق پی آئی سی کے فیلڈ اسٹاف نے ڈسٹرکٹ جیل کے معاملات کی خفیہ انکوائری کی اور 30 ​​ستمبر کو انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات مرزا شاہد سلیم بیگ کو رپورٹ پیش کی۔

رپورٹ میں انتہائی خطرناک انکشاف کیا گیا کہ جیل میں قید مجرموں سے ملنے کے لیے آنے والی خواتین کے ساتھ جیل کا عملہ زبردستی جنسی ہراسگی اور عصمت دری کرتا ہے ، بدنامی کے ڈر سے خواتین خاموشی اختیار کرلیتی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "یہ کافی پریشان کن ہے اور ایک اسکینڈل کا باعث بن سکتا ہے جو پنجاب انتظامیہ کی بری کارکردگی کو ظاہر کرتا ہے۔”

پراونشل انٹیلی جنس سینٹر کے فیلڈ اسٹاف نے ڈسٹرکٹ جیل کے معاملات کی ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی کے ذریعے انکوائری کرانے کی سفارش کی جس کی سربراہی ایک دیانتدار اور ایڈیشنل سیکرٹری کے عہدے کے برابر شخص کو دی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ جیل کے عملے کو جیل مینول کی خلاف ورزی ، تشدد، بدعنوانی، بھتہ خوری اور جنسی زیادتی کرنے پر سخت سزا ملنی چاہیے۔

ڈان اخبار کے مطابق رپورٹ میں یہ بھی سفارش کی گئی کہ جیل میں آنے والی خواتین کے وقار اور رازداری کا تحفظ کیا جانا چاہیے اور ان کے تحفظ کے لیے خواتین عملے کو ہی تعینات کیا جانا چاہیے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "تمام قیدیوں کو جنسی استحصال اور ہراسگی سے بچانے کے لیے اقدامات کیے جانے چاہئیں۔”

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ڈسٹرکٹ جیل کے اہلکاروں کی ملی بھگت سے بدعنوانی اور کرپشن اپنے عروج پر ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "ایک لڑکی جیل میں کسی قیدی سے ملنے آتی ہے مگر وہ اس ملنے کی آڑ میں دیگر قیدیوں کو منشیات فراہم کرتی ہے۔ باہر 500 روپے میں ملنے والا چرس کا پیکٹ ، جیل کے اندر 3,000 سے 3,500 روپے میں فروخت ہوتا ہے۔”

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ "منشیات فروشوں کے طاقتور مافیاز کی جیل انتظامیہ کے تعاون سے جیل کے اندر گہری جڑیں ہیں ، ممنوعہ اشیاء کی فروخت کر کے بلا روک ٹوک منافع کمایا جارہا ہے جس کا حصہ جیل انتظامیہ کو بھی جاتا ہے۔”

رپورٹ میں اس بات کا بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ "منشیات فروشی کے جرائم میں قید کچھ قیدیوں نے جیل کے عملے کے تعاون سے منشیات کے عادی قیدیوں کے ذریعے ممنوعہ اشیاء کی فروخت کا دھندا شروع کررکھا ہے۔”

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "قیدی اپنا پسندیدہ کھانا باہر سے منگوانے کے لیے جیل عملے کو بھاری رشوت بھی دیتے ہیں۔

رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ "امیر اور خوشحال قیدی جیل کے اہلکاروں کو رشوت دے کر خود کو جیل سے باہر کے سرکاری اسپتالوں میں داخل کرواتے ہیں۔”

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "قیدیوں اور ان کے اہل خانہ کے درمیان ملاقات جیل کے عملے کے لیے ایک منافع بخش کاروبار بن گیا ہے۔ مبینہ طور پر ایک ملاقات کے لیے 500 روپے سے 2000 روپے تک رشوت وصول کی جاتی ہے۔”

ڈان اخبار کے مطابق جب انہوں نے اس رپورٹ پر تبصرہ حاصل کرنے کے لیے آئی جی جیل خانہ جات مسٹر بیگ سے رابطہ کیا تو انہوں نے تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔

متعلقہ تحاریر