ارشد شریف قتل کیس: صحافتی برادری کا خرم احمد اور وقار احمد کو شامل تفتیش کرنے کا مطالبہ

پاکستانی اور بین الاقوامی میڈیا نے سوالات اٹھائے ہیں کہ مقتول سینئر صحافی ارشد شریف کی گاڑی کے ڈرائیور خرم احمد اور ان کے بھائی وقار احمد کینیا پولیس کی فائرنگ سے کیسے بچ گئے۔

اتوار اور پیر کی درمیانی شپ پاکستان کے معروف اینکر پرسن اور سینئر صحافی ارشد شریف کو کینیا کے دارالحکومت نیروبی کے مضافاتی علاقے میں پولیس نے اندھا دھند فائرنگ کرکے قتل کردیا تاہم ان کے ساتھ گاڑی میں موجود ڈرائیور خرم احمد اور ان کے بھائی وقار احمد دونوں واقعے کے بعد لاپتا ہے ، جس نے وقوعہ کو مزید مشکوک بنا دیا ہے۔

ٹی آر ٹی ورلڈ سے منسلک ایک سینئر اور انویسٹی گیٹو  صحافی علی مصطفیٰ نے کینیا میں شوٹنگ رینج کے مالک خرم احمد اور ان کے بھائی وقار احمد کے مشکوک کردار کے حوالے سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک مکمل تھریڈ شیئر کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں شرکت ، اعظم نذیر تارڑ کو مہنگی پڑ گئی

جسٹس اطہر من اللہ سمیت تین ججز کے نام سپریم کورٹ میں تعیناتی کے لیے فائنل

رپورٹر علی مصطفیٰ نے لکھا ہے کہ "وقار احمد اور خرم احمد سے تفتیش کی ضرورت ہے کیونکہ ارشد شریف کے قتل میں ملوث دو اہم ملزمان ہوسکتے ہیں- وقار احمد خاص طور کلیدی کردار ہو سکتا ہے کیونکہ جہاں جرم وہاں پر اس کے ہٹس اور ہومز ہیں۔ اسی نے ارشد کی لاش کو جلد بازی میں وہاں سے ہٹانے کا بھی انتظام کیا۔

"ارشد شریف نے مارے جانے سے چند گھنٹے قبل وقار احمد کی ملکیت والی AMMODUMP شوٹنگ رینج کا دورہ کیا تھا- اس کاروبار کا یو ٹیوب پیج بھی ہے جس کے ذریعے سیکورٹی اداروں کے اہلکاروں کو ان کی شوٹنگ کی ٹریننگ دی جاتی ہے تاکہ وہ اپنی شوٹنگ کی مہارت کو بہترف بناسکیں۔

رپورٹر علی مصطفیٰ نے مزید لکھا ہے کہ "پولیس کی فائرنگ سے بچ جانے والا ڈرائیور خرم احمد ، وقار احمد کا بھائی ہے، جو AMMODUMP شوٹنگ رینج کا مالک ہے ، ارشد شریف قتل ہونے سے پہلے بھی یہاں آیا کرتا تھا ، جہاں اس کی لاش کو قتل کرنے کے بعد پہنچایا گیا تھا۔”

’’جس نے ارشد شریف کو مارنے کا حکم دیا اس نے ایک بہت بڑی غلطی کی کہ اس نے پاکستان کے انتہائی سخت گیر رپورٹرز کو جوش دلایا – وہ اس سازش کی تہہ تک پہنچنے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے چاہے وہ کتنا بھی تھک کیوں نا جائیں۔‘‘

TRT ورلڈ کے صحافی نے ایک میڈیا رپورٹ بھی شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "کینیا کے شہری ٹی وی چینل کی اس رپورٹ میں جس میں وقار احمد کی AMMODUMP شوٹنگ/فائرنگ رینج کے تفصیلی مناظر ہیں جس دن ارشد شریف کو مارا گیا اس دن بھی اس نے شوٹنگ رینج کا دورہ کیا تھا ، اور جہاں وقار احمد باقاعدگی سے کینیا کے سیکورٹی اہلکاروں کی میزبانی کیا کرتا تھا۔”

دی نیوز کے تحقیقاتی صحافی عمر چیمہ نے ٹی آر ٹی کے رپورٹر کی خبر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ "یہ بہت بڑا سچ ہے ، ان دونوں لڑکوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دے رہا ، وہ کون ہیں؟ کم از کم، ہمیں معلوم ہونا چاہئے۔”

سینئر صحافی، ٹی وی اینکر اور یوٹیوبر ارشد شریف کو اتوار کی رات کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں قتل کر دیا گیا۔ ارشد شریف کا شمار پاکستان کے معروف تحقیقاتی صحافیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے ملکی اور بین الاقوامی میڈیا کے لیے ملک کے اہم سیاسی واقعات کی کوریج کی۔

کینین پولیس حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان صحافی ارشد شریف کے سر میں گولی لگنے سے ہلاکت ہوئی ، فائرنگ کا واقعہ اس وقت پیش آیا جب ان کے ڈرائیور نے مبینہ طور پر روڈ بلاک کی خلاف ورزی کی۔

پولیس نے دعویٰ کیا فائرنگ کا واقعہ غلطی فہمی کی بنا پر پیش آیا تھا کیونکہ وہ ارشد شریف کو شناخت نہیں کرسکے تھے۔

متعلقہ تحاریر