ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار کی پریس کا مکمل متن نیوز 360 پر

لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا ہم نے ہر ممکن کوشش کی کہ سیاستدان بیٹھ کر خود قومی مسائل کو حل کریں۔ لیکن ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔ پھر یہ کہا گیا کہ سائفر کو چھپایا گیا۔ سوال یہ ہے کہ فارن آفس جو سائفر پوسٹ کررہا تھا کررہا تھا کیا اس نے اسے چھپایا تھا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ سینئر صحافی ارشد شریف کی کینیا میں ہلاکت کے حوالے سے آج قوم کو کچھ آگاہی دینا ہے۔

ترجمان آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ یہ پریس کانفرنس ایسے حالات کے تناظر میں کی جارہی ہے ، جہاں حقائق کا صحیح ادراک انتہائی ضروری ہے ، تاکہ فیکٹ ، فکشن اور اوپینین میں فرق واضح کیا جاسکے ، اور سچ سب کے سامنے لایا جاسکے۔

یہ بھی پڑھیے

سینئر صحافی ارشد شریف کے قتل کا معاملہ ، فیصل واوڈا کی آئیں بائیں شائیں

ان کا کہنا تھا کہ اس پریس کانفرنس کی اہمیت اور حساسیت کی وجہ سے وزیراعظم پاکستان کو اس حوالے سے خصوصی طور پر پیشگی آگاہ کیا گیا ہے ۔

لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ اس کے ساتھ ساتھ ان عوامل کا احاطہ کرنا بہت ضروری ہے ، جس کے تحت نہ صرف ایک مخصوص بیانیہ بنایا گیا ، بلکہ اسی جھوٹے بیانیے کے ذریعے لوگوں کو گمراہ کیا گیا ، اداروں ، ان کی لیڈرشپ اور یہاں تک کہ چیف آف آرمی اسٹاف پر بھی بے جا الزام تراشی کی گئی ، اور اس کی وجہ سے معاشرے میں تقسیم اور غیرمعمولی اضراب کی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ ارشد شریف صاحب کی موت ایک انتہائی اندوہناک واقعہ ہے ، اور ہم سب کو اس کا شدید دکھ ہے ، اللہ تعالیٰ ارشد شریف صاحب کی مغفرت فرمائے ، دکھ اور تکلیف کی اس گھڑی میں ہم سب ان کے لواحقین کے ساتھ برابر کے شریک ہیں ، ارشد شریف صاحب پاکستانی صحافت کا ایک آئیکون تھے ۔ کیونکہ وہ ایک فوجی کے بیٹے ، ایک شہید کے بھائی اور ایک سرونگ آفیسر کے برادر نسبتی تھے۔ اس لیے فوج کے حوالے سے ان کے پروگرامز میں وہ درد اور احساس ہمیشہ جھلکتا تھا ، سیاچین ہو، قبائلی علاقہ جات ہوں ، فوجی مشقیں ، آپریشنل ایریاز ، لائن آف کنٹرول ، ارشد شریف کے پروگرامز صحافت کی دنیا میں ایک رول ماڈل کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔ انہوں نے اپنے شاندار کام سے صحافت کے اندر مقام بنایا۔ ان کی وجہ شہرت تحقیقاتی صحافت تھی ، لہٰذا جب سائفر کا معاملہ سامنے لایا گیا تو ارشد شریف صاحب نے اس پر بھی متعدد پروگرامز کیے ، انہوں نے اس کے وقت کے وزیراعظم سے بھی کئی ملاقاتیں بھی کیں ، اور ان کے کئی انٹرویوز بھی کیے۔ جس کے نتیجے میں یہ بات بھی کی گئی کہ شائد انہیں مختلف میٹنگ کے مینٹس اور سائفر بھی دکھایا گیا تھا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا سائفر اور ارشد شریف صاحب کی وفات کے ساتھ جڑے واقعات کے حقائق تک پہنچنا بہت ضروری ہے۔ تاکہ اس سلسلے میں کسی قسم کا ابہام اور قیاس آرائی پیدا نہ ہو۔ اور قوم سچ جان سکے۔ جہاں تک سائفر کا معاملہ ہے آرمی چیف نے 11 مارچ کو کامڑہ میں سابق وزیراعظم عمران خان کے ساتھ خود اس کا تذکرہ کیا۔ جس پر انہوں نے فرمایا کہ یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ ہمارے لیے یہ حیران کن تھا جب 27 مارچ اسلام آباد کے جلسے میں کاغذ کا ایک ٹکڑا لہرایا گیا ، اور ڈرامائی انداز میں ایک ایسا بیانیہ دینے کی کوشش کی گئی ، جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا۔ سائفر کے حوالے سے حال ہی میں کئی حقائق منظر عام پر آچکے ہیں ، جس نے اس کھوکھلی اور من گھڑت کہانی کو بےنقاب کردیا ہے، کہ کیسے پاکستانی سفیر کی رائے کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا ، 31 مارچ کو نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے میٹنگ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی ، آئی ایس آئی نے بڑے واضح اور پیشہ وارانہ انداز میں نیشنل سیکورٹی کمیٹی کو بتا دیا تھا کہ حکومت کے خلاف کسی بھی قسم کی سازش کے کوئی شواہد نہیں ملے۔

ترجمان آئی ایس پی آر کا کہنا تھا نیشنل سیکورٹی کمیٹی کو بریفنگ دی گئی ، کہ یہ پاکستانی سفیر کی ذاتی رائے ہے۔ اور پاکستانی سفیر نے جو لائحہ عمل رکمنڈ کیا تھا وہ لائحہ عمل نیشنل سیکورٹی کمیٹی نے بھی فارن آفس کو رکمنڈ کیا تھا۔ آئی ایس آئی کی سائفر سے متعلق فیکٹ فائنڈنگ میں کسی قسم کی سازش کے شواہد نہیں ملے۔اور یہ تمام فائنڈنگ ریکارڈ کا حصہ ہیں ، ہم ان حقائق کو قوم کے سامنے رکھنا چاہتے تھے ، تاہم نے یہ فیصلہ اس وقت کی حکومت پر چھوڑ دیا ، کہ وہ آئی ایس آئی کی فائنڈنگ کو پبلک کردے۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا ، بلکہ مزید افواہیں اور جھوٹی خبریں پھیلائی گئیں ، جس کا مقصد سیاسی فائدہ حاصل کرنا اور ایک مخصوص بیانیہ تشکیل دینا تھا۔ کہ حکومت کے خلاف آئینی ، قانونی اور سیاسی معاملے کی بجائے عدم اعتماد کی تحریک ، رجیم چینج آپریشن کا حصہ تھا۔ پھر اسی حوالے سے امریکا کے دنیا بھر میں رجیم چینج کے حوالے دیئے گئے اور ان کو پاکستان میں حکومت کی تبدیلی جوڑ دیا گیا ۔ پاکستان کے اداروں بل الخصوص فوج کی لیڈر شپ کو نشانہ بنایا گیا۔ ہر چیز کو غداری اور رجیم چینج آپریشن سے جوڑ دیا گیا، یہی وہ وقت تھا جب ارشد شریف صاحب اور دیگر کئی صحافی ، اور سوشل میڈیا ایکٹیویٹس کو ایک مخصوص بیانیہ فیڈ کیا گیا۔ جس کی حقیقت بھی بہت حد تک واضح ہو چکی ہے۔

ان کا کہنا تھا ذہن سازی کے ذریعے قوم اور افواج پاکستان میں ، سپاہ اور لیڈرشپ کے درمیان فرق پیدا کرنے کی مضموم کوشش کی گئی ، اور خاص پر پاکستان کے اداروں کو دنیا بھر میں بدنام کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ اس میڈیا ٹرائل میں اے آر وائی چینل سے بلالخصوص پاکستانی آرمی اور لیڈرشپ کے حوالے سے ایک جھوٹے اور سازشی بیانیے کو فروغ دینے میں ایک سٹنگ ڈاکٹر کا کردار ادا کیا۔ اور ایجنڈا سیٹنگ کے ذریعے فوج کے خلاف مخصوص بیانیے کو پروان چڑھایا۔ نیشنل سیکورٹی کمیٹی کی میٹنگ کے اعلامیے کو غلط انداز میں پیش کیا گیا ، حتکہ این ایس سی کی دوسری میٹنگ میں اسد مجید کے حوالے سے من گھڑت خبریں بھی چلائی گئیں۔ پاکستان آرمی سے ایک سیاسی مداخلت کی توقع کی گئی ، جوکہ آئین پاکستان کے خلاف ہے۔ لفظ اے پولیٹیکل ، نیوٹرل کو گالی بنا دیا گیا۔ اس تمام جھوٹے بیانیے اور گمراہ کن پروپیگنڈے کے باوجود ادارے نے اور خاص طور پر آرمی چیف نے نہایت تحمل کا مظاہرہ کیا۔

لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا ہم نے ہر ممکن کوشش کی کہ سیاستدان بیٹھ کر خود قومی مسائل کو حل کریں۔ لیکن ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔ پھر یہ کہا گیا کہ سائفر کو چھپایا گیا۔ سوال یہ ہے کہ فارن آفس جو سائفر پوسٹ کررہا تھا کررہا تھا کیا اس نے اسے چھپایا تھا ، اور جو اس وقت سائفر کو ہینڈل کرنے کے ذمہ دار تھے ان  کے خلاف پھر کیا ایکشن لیا گیا۔ اور اگر ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا تو کیوں نہیں لیا گیا۔ اور ان کے نام کیوں نہیں لیے جاتے ۔ لفظوں کے ہیرپھیر اور گمراہ کن اور جھوٹی خبریں پھلاکر اداروں اور ان کی لیڈرشپ کو غدار ٹھہرا کر کٹہرے میں کھڑا کردیا۔ مرحوم ارشد شریف اور دیگر ایکٹیویٹس نے بھی سائفر کے حوالے سے کھل کر بات کی۔ بہت سخت باتیں بھی کیں ، ارشد شریف صاحب کو 2021 سے اے آر وائی نیوز چینل کے پلیٹ فارم سے اداروں کے خلاف تنقید کررہے تھے ، جس میں انہوں نے مختلف اداروں کے حوالے سے سخت تنقیدی پروگرام بھی کیے ، لیکن اس سب کے باوجود ہمارے دل میں ان کے حوالے سے نہ منفی جذبات تھے نہ ہیں۔ کئی دیگر صحافی بھی اس بات کررہے ہیں۔ لیکن وہ پاکستان میں ہی رہے ، آج بھی ہو بہت سخت سوالات اٹھا رہے ہیں، جو ان کا آئینی حق ہے ۔ تمام سائفر کے ڈرامے کے دوران جب بھی کسی صحافی یا چینل سے ہم نے بات کی تو ان سے یہی کہا کہ بنا ثبوت اور من گھڑت مفروضات پر غداری اور سازشی الزامات ، ادارے کی لیڈرشپ پر نہ لگائے جائیں۔ اور فوج کے اے پولیٹیکل سٹانس کو متنازعہ نہ بنایا جائے۔

ان کا کہنا تھا آج دیکھنا ہوگا کہ مرحوم ارشد شریف صاحب کے حوالے سے اب تک کے حقائق کیا ہیں۔؟

1: 5 اگست 2022 کو خیبرپختون خوا حکومت کی جانب سے اے آر وائی اینکر ارشد شریف صاحب کے حوالے سے تھریٹ الرٹ جاری کیا گیا ، ہماری اطلاع کے مطابق یہ تھریٹ الرٹ چیف منسٹر خیبرپختون خوا کی خاص ہدایت پر جاری کیا گیا۔ جس میں شبہ ظاہر کیا گیا کہ افغانستان میں مقیم ٹی ٹی پی نےسپن بولدک میں ایک میٹنگ کی ہے ، کہ وہ ارشد شریف کو راولپنڈی اور ملحقہ علاقوں میں ٹارگٹ کرنا چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے وفاقی حکومت یا سیکورٹی اداروں سے کسی قسم کی معلومات شیئر نہیں کی گئیں۔ کہ کیسے اور کس نے کے پی حکومت یہ معلومات پہنچائیں کہ ارشد شریف صاحب کو ٹارگٹ کیا جائے گا۔ اس سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ یہ تھریٹ الرٹ مخصوص سوچ کے تحت جاری کیا گیا۔ جس کا مقصد شائد ارشد شریف صاحب کو ملک چھوڑنے پر آمادہ کرنا تھا۔ جب کہ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ ارشد شریف صاحب ملک چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے تھے ، لیکن انہیں بار بار باور کرایا جارہا ہے کہ انہیں خطرہ لاحق ہے۔

2: 8 اگست دو ہزار بائیس کو شہباز گل کے اے آر وائی نیوز پر فوج کے درمیان بغاوت کے اکسانے کے متنازعہ بیان کی تمام مکاتب فکر نے پرزور مذمت کی۔ اور اسے ریڈ لائن کراس کرنے کے مترادف قرار دیا۔ 9 اگست کو انہیں گرفتار کرلیا گیا۔

3: اس متنازعہ اسپیشل ٹرانس میشن کے حوالے سے جب اے آر وائی نیوز کے سینئر ایگزیکٹو وائس پریذیڈنٹ عماد یوسف سے تحقیقات کی گئیں تو معلوم ہوا کہ اے آر وائی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر سلمان اقبال نے شہباز گل کی گرفتاری کے فوراً بعد عماد یوسف کو ہدایات دیں کہ ارشد شریف کو جلد از جلد پاکستان سے باہر بھیج دیا جائے۔ اس کے جواب میں عماد یوسف نے بتایا کہ ارشد شریف پشاور سے دبئی کے لیے روانہ ہوں گے۔ پھر یہ بیانیہ بنایا گیا کہ ارشد شریف کو بیرون ملک قتل کردیا جائے گا۔ 4: 9 اگست 2022 کو چار بجکر چالیس منٹ پر کراچی سے ارشد شریف کی ایئر ٹکٹ بک کی گئی ، جوکہ اے آر وائی گروپ کے اسسٹنٹ مینجر پلینگ اینڈ ایڈمنسٹریشن مسٹر عمران کے کہنے پر فضلِ ربی نامی ٹریول ایجنٹ نے ساڑھے پانچ لاکھ روپے میں ٹکٹ بک کیا۔ اس ٹریول پلان کے مطابق 9 ستمبر 2022 کو ارشد شریف کو پاکستان واپس آنا تھا۔

5: 10 اگست کو ارشد شریف باچا خان ایئرپورٹ سے ایئرامارات کی پرواز 637 کے ذریعے صبح 6 بجکر 10 منٹ پر دبئی کے لیے روانہ ہو گئے۔ ارشد شریف کو کے پی گورنمنٹ نے انہیں مکمل پروٹوکول فراہم کیا۔ چیف منسٹر کے عملے نے ارشد شریف کو تمام کاؤنٹرز پر معاونت فراہم کی۔ اس حوالے سے اداروں کی جانب سے ارشد شریف کو روکنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ اگر گورنمنٹ روکنا چاہتی تو ایف آئی اے کے ذریعے یہ کیا جاسکتا تھا۔ ارشد شریف صاحب تب تک یو اے ای میں رہنے جب تک ان کےپاس یو اے ای کا ویلڈ ویزا  تھا۔ وہ کینیا اس وقت روانہ ہوئے جب ان کا دبئی کا ویزا ختم ہوا۔ ہم اطلاعات کے مطابق کسی نے ارشد شریف کو سرکاری سطح پر دبئی سے نکلنے پر مجبور نہیں کیا۔ تو وہ کون تھے جنہوں نے انہیں وہاں سے جانے پر مجبور کیا۔؟

6: سوال یہ بھی اٹھا ہے کہ ارشد شریف کی دستاویزی معاملات کو کس نے سرانجام دیا۔؟ یو اے ای میں ارشد شریف کے قیام و طعام کا بندوبست کون کررہا تھا۔ کس نے انہیں یہ باور کرایا کہ وہ پاکستان واپس نہ آئیں۔ ورنہ انہیں مار دیا جائے گا۔ ؟ کس نے انہیں یقین دلایا کہ ان کی جان باہر کے ملک ، خاص طور پر کینیا میں محفوظ ہے۔؟ ایک بیانیہ یہ بھی بنایا گیا کہ کینیا وہ واحد ملک تھا ویزا فری ملک تھا۔ جبکہ پوری دنیا میں 34 ایسے ممالک ہیں جو ویزا فری ہیں۔

7: ارشد شریف کیونکر کینیا پہنچے اور ان کی میزبانی کون کررہا تھا، ان کا پاکستان میں کس کس سے رابطہ تھا ، ارشد شریف کی وفات سے منسلک کردار وقار احمد اور خرم احمد کون ہیں۔؟ ان کا ارشد شریف سے کیا رشتہ تھا۔ ؟ کیا ارشد شریف انہیں پہلے سےجانتے تھے یا کسی نے یہ رابطہ استوار کروایا تھا۔ ؟ کچھ لوگوں نے ارشد شریف صاحب کے لندن میں ملاقات کے دعوے بھی کیے ، وہ دعوے ان سے کس نے کروائے۔؟ اور کن بنیادوں پر وہ دعوے کیے گئے۔؟ کیا یہ دعوے بھی فیک نیوز اور ڈس انفارمیشن کا حصہ تھے۔؟

8: کینیا کی پولیس اور حکومت نے اس کیس میں اپنی غلطی کو تسلیم کیا ہے۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا واقعی یہ واقعہ غلطی پر نہج کرتا ہے یا ٹارگٹ کلنگ ہے۔ بہت سے سوالات جواب طلب ہیں۔ اس افسوس ناک واقعے کی صاف و شفاف تحقیقات بہت ضروری ہیں۔ اور اس کے لیے ہم نے حکومت سے اعلیٰ اختیاراتی کمیشن کی تشکیل کی استدعا کی ہے۔ اس سارے واقعے میں اے آر وائی نیوز کے چیف ایگزیکٹو آفیسر سلمان اقبال کا نام بار بار آتا ہے ، لہٰذا انہیں پاکستان واپس لایا جانا چاہیے۔ اور شامل تفتیش کرنا چاہیے۔ ارشد شریف کی موت کے بعد مخصوص لوگوں نے الزامات کا رخ فوج کی جانب موڑنا شروع کردیا۔ اس سفاک موت سے کون فائدہ اٹھا رہا ہے۔ یہ دیکھنا بہت ضروری ہے۔ جب تک مکمل تحقیقاتی رپورٹ سامنے نہیں آجاتی کسی پر الزام تراشی نہیں ہونی چاہیے ۔ ہم ایک آزاد اور خودمختار قوم ہیں اور ہم میں سے ہر ایک نے پاکستان کی ترقی اور امن کے کردار ادا کرنا ہے۔

متعلقہ تحاریر