صدر مملکت فوج کے سپریم کمانڈر کی حیثیت سے مجھے ملنے والی دھمکیوں کا نوٹس لیں، عمران خان

سابق وزیراعظم عمران خان نے فوج کو اس کے آئینی حدود تک محدود رکھنے کے لیے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو ایک طویل خط لکھا ہے۔

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو فوج کو اس کے آئینی حدود میں رکھنے کے لیے خط لکھا دیا ہے۔ عمران خان کا کہنا ہے آپ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سربراہ ہیں اور آپ کو اس کی جمہوریت اور اس کے آئین کی حفاظت کرنی چاہیے۔ 

سابق وزیراعظم عمران خان نے فوج کو اس کے آئینی حدود تک محدود رکھنے کے لیے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو ایک طویل خط لکھا ہے۔

صدر مملکت کو مخاطب کرتے ہوئے خط میں لکھا ہے کہ "محترم صدر صاحب ، جب سے پی ٹی ٹی کی حکومت کو ہٹایا گیا، جیسے ہی قوم حقیقی آزادی کے لیے میری آواز پر اٹھنے لگی ہے ، ہمیں جھوٹے الزامات، ہراساں کیے جانے، گرفتاریوں اور حراستی تشدد کا بڑے پیمانے پر سامنا ہے۔”

خط کے متن کے مطابق وزیر داخلہ نے مجھے متعدد بار جان سے مارنے کی دھمکیاں دی ہیں، جبکہ مجھے وزیر اعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اور میجر جنرل فیصل ڈی جی سی آئی ایس آئی کی طرف قتل کرنے کی سازش تیار کی گئی جس کی مجھے پہلے سے اطلاع تھی۔”

یہ بھی پڑھیے

سینیٹر اعظم سواتی کی ایک مبینہ ننگی ویڈیو نے پورے نظام کو ننگا کردیا

ارشد شریف کی پوسٹ مارٹم رپورٹ: اسلام آباد ہائی کورٹ سے پمز اسپتال اور انتظامیہ کو نوٹس جاری

خط کے متن کے مطابق "اس سازش پر اس ہفتے کے شروع میں ہمارے لانگ پر عملدرآمد کیا گیا ، مجھ پر قاتلانہ حملہ کرایا گیا مگر اللہ کے فضل سے میں بچ گیا اور قاتلانہ حملہ ناکام ہوگیا۔”

Imran Khan's Letter

Imran Khan's Letter

چیئرمین تحریک انصاف نے خط کے متن میں مزید لکھا ہے کہ "آج آپ سے میری اپیل ہے کہ صرف پاکستان کے سربراہ کی حیثیت سے ہی نہیں بلکہ ہمارے آئین کے آرٹیکل 243 (2) کے تحت مسلح افواج کے سپریم کمانڈر کی حیثیت سے بھی آپ سے یہ اپیل ہے کہ وہ درج ذیل سنگین غلط کاموں کا نوٹس لیں جو کہ پاکستان کی قومی سلامتی کو کمزور کرتی ہیں۔”

خط کے متن میں صدر مملکت سے چیئرمین تحریک انصاف نے تین مطالبے کیے ہیں۔

1: آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی اس وقت ہوئی جب بطور وزیر اعظم ، چیف آف آرمی اسٹاف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے درمیان ہونے والی ایک گفتگو میڈیا تک لیک کی گئی ۔ یہاں پر بہت سنگین نوعیت کا سوال پیدا ہوتا تو اگر وزیراعظم کی خفیہ گفتگو محفوظ نہیں تو پھر کس کی لائن محفوظ ہے۔ پتا لگایا جانا چاہیے کہ اس غیر قانونی تار ٹیپنگ کرنے میں کون کون اور کون سے ادارے ملوث تھے؟ یہ اعلیٰ ترین سطح پر قومی سلامتی کی خلاف ورزی ہے۔

  1. امریکہ میں ہمارے سفیر کی طرف سے بھیجے گئے سائفر کا مسئلہ جس میں امریکی اہلکار نے ہمارے ایلچی کو حکومت کی تبدیلی کی براہ راست دھمکی سے آگاہ کیا تھا جس نے اس کے حوالے سے وہی اطلاع دی تھی جیسا کہ اسے پہنچایا گیا تھا۔ اس معاملے پر میرے دور میں این ایس سی کی میٹنگ ہوئی کیونکہ وزیراعظم نے واضح طور پر فیصلہ کیا کہ یہ ہمارے اندرونی معاملات میں ناقابل قبول مداخلت ہے اور این ایس سی نے اسلام آباد میں امریکی ایلچی کو ایم او ایف اے جاری کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ این ایس سی کے اس فیصلے کی توثیق شہباز شریف حکومت کے تحت ہونے والے این ایس سی کے اجلاس نے بھی کی تھی۔”

عمران خان نے مزید لکھا ہے کہ "اسی چیز کے پیش نظر، 27 اکتوبر 2022 کو ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی ایس پی آر نے مشترکہ پریس کانفرنس کی جو سابقہ ​​اور موجودہ حکومتوں کے تحت این ایس سی کے فیصلے سے متصادم تھی۔ پریس کانفرنس میں سائفر کو واشنگٹن کی جانب سے اندرونی مداخلت قرار نہیں دیا گیا تھا بلکہ محض "بدانتظامی” کا معاملہ قرار دیا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دو فوجی بیوروکریٹس کیسے عوامی سطح پر این ایس سی کے فیصلے کی مخالفت کیسے کر سکتے ہیں۔

3: آئی ایس پی آر کی جانب سے آج پاکستان کی سب سے بڑی اور شاید واحد وفاقی سیاسی جماعت کے رہنما کو نشانہ بناناکیسا ہے؟ مسلح افواج کے سپریم کمانڈر کی حیثیت سے میں آپ سے مطالبہ کرتا ہوں کہ آئی ایس پی آر کو ان واضح آپریشنل لائنوں تک تیار کرنا شروع کر دیں۔ جناب صدر، آپ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سربراہ ہیں اور آپ کو اس کی جمہوریت اور اس کے آئین کی حفاظت کرنی چاہیے۔  کوئی شخص یا ریاستی ادارہ ملک کے قانون سے بالاتر نہیں ہو سکتا۔ ہم ریاستی اداروں کے اندر موجود بدمعاش عناصر کے ہاتھوں شہریوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر بدسلوکی دیکھ رہے ہیں، جن میں حراست میں تشدد اور اغوا شامل ہیں۔”

سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے خط میں مزید لکھا ہے کہ "آپ ریاست کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز ہیں اور میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ طاقت کے غلط استعمال اور ہمارے قوانین اور آئین کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے ابھی سے عمل شروع کر دیں ، جو ہر شہری کے بنیادی حقوق کو یقینی بناتا ہے۔”

متعلقہ تحاریر