سپریم کورٹ سے کامران مرتضیٰ کی لانگ مارچ کے خلاف دائر درخواست مسترد
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا ہے کہ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کے موقف کے بعد حکم جاری کرنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی ، تاہم حالات خراب ہوئے تو دوبارہ درخواست دائر کی جاسکتی ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین، سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے لانگ مارچ کے خلاف سینیٹر کامران مرتضیٰ کی درخواست غیر مؤثر ہونے پر نمٹاتے ہوئے کہا کہ واضح طور پر آئینی خلاف ورزی کا خطرہ ہو تو عدلیہ مداخلت کرے گی۔عدالت نے حکم دیا کہ اگر حالات خراب ہوئے تو نئی درخواست دائر کی جا سکتی ہے۔
جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں جسٹس عائشہ ملک اورجسٹس اطہر من اللّٰہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے لانگ مارچ کے خلاف جمعیت علماء اسلام ف کے رہنما سینیٹر کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ کی درخواست کی سماعت کی۔درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ سپریم کورٹ تحریک انصاف دھرنے کے پیش نظر انتظامیہ اقدامات کی ہدایات کرے اور دھرنے کو ریگولیٹ کے لیے احکامات دیے جائیں۔
یہ بھی پڑھیے
پاکستان کے نظام انصاف سے مجھے اب کوئی امید نظر نہیں آرہی، عمران خان
لندن میں بیٹھے مفرور مجرم نے ملک کا مستقبل داؤ پر لگا دیا ہے، عمران خان
چیف جسٹس نے درخواست گزار سے استفسار کیا کہ انتظامیہ کے پاس صورتِ حال سے نمٹنے کے وسیع اختیارات ہیں،ایسے میں عدالت مداخلت کیوں کرے؟۔
عدالت نے دریافت کیا کہ کیا درخواست گزار یہ سمجھتے ہیں کہ انتظامیہ اتنی کمزور ہو گئی ہے کہ مارچ کنٹرول نہیں کر سکتی؟
جس پر سینیٹر کامران مرتضیٰ نے مؤقف اختیار کیا کہ مارچ کرنا تحریکِ انصاف کا حق ہے لیکن اس سے عام آدمی کے حقوق متاثر نہیں ہونا چاہیں۔بات بہت آگے جا چکی ہے۔ پی ٹی آئی کے لانگ مارچ پر فائرنگ سے ایک شخص کی جان جا چکی ہے اور یہ مارچ جاری ہے جس عوام کے معمولاتِ زندگی متاثر ہو سکتے ہیں۔
ان کاکہنا تھا کہ عمران خان کا مارچ جاری ہے اور پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری کے مطابق جمعے یا ہفتے کو مارچ کے شرکاء اسلام آباد پہنچیں گے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ احتجاج کا حق لامحدود نہیں آئینی حدود سے مشروط ہے۔ تاہم بظاہر لانگ مارچ کے معاملے میں عدالت کی مداخلت قبل از وقت ہو گی۔ پی ٹی آئی کا لانگ مارچ سیاسی مسئلہ ہے جس کا سیاسی حل ہو سکتا ہے۔عدالت عظمیٰ نے کہا کہ اس قسم کے مسائل میں مداخلت سے عدالت کیلئے عجیب صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آپ چاہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ ڈپٹی کمشنر کا کردار ادا کرے۔ آپ ایک سینیٹر ہیں، پارلیمنٹ کو مضبوط کریں۔ اس پر کامران مرتضیٰ نے جواب دیا کہ وہ ذاتی حیثیت میں عدالت آئے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کیسے مان لیں کہ آپ حکومت کا حصہ بھی ہیں اور ذاتی حیثیت میں آئے ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ مفروضے کی بنیاد پر ہمارے پاس آئے ہیں۔ انھوں نے سوال کیا کہ کیا انتظامیہ نے پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے لیے جگہ کے حوالے سے کوئی فیصلہ کیا ہے؟
عائشہ ملک نے کہا کہ کیا حکومت نے احتجاج کو ریگولیٹ کرنے کا کوئی طریقہ کار بنایا ہے؟ انہوں نے کہا کہ توہینِ عدالت کا معاملہ لارجر بینچ میں زیرِالتواء ہے، فریقین نے یقین دہانی کی خلاف ورزی پر جواب دینا ہے، کیا آپ چاہتے ہیں کہ یہ بینچ الگ سے لانگ مارچ کے معاملے میں مداخلت کرے؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے عدالت کو آگاہ کیا کہ انتظامیہ نے پی ٹی آئی کو روات میں جلسے کا کہا تھا اور پی ٹی آئی سے بیان حلفی مانگا تھا جو اب تک پر نہیں ہوا۔ان کا کہنا تھاکہ انتظامیہ کو اسلام آباد میں لانگ مارچ کے لیے پی ٹی آئی کا خط ملا ہے، انتظامیہ نے پی ٹی آئی سے تاریخ، وقت اور جگہ کا پوچھا، جس کا جواب نہیں دیا گیا، وزیر آباد واقعے سے پہلے پی ٹی آئی نے خون ریزی کی باتیں کیں، وزیر آباد واقعے کے بعد انتظامیہ نے پی ٹی آئی کو اسلام آباد میں داخلے کی اجازت دینے سے انکار کیا، اسلام آباد میں جلسے کی اجازت پر کیس اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرِالتواء ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ اب تو موجودہ درخواست غیر مؤثر ہو گئی ہے۔ کیا عدلیہ کی مداخلت سے انتظامیہ اور پارلیمنٹ کمزور نہیں ہو گی؟
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ کے مطابق تو ایگزیکٹیو کے اختیارات 27 کلومیٹر تک محدود ہیں۔
مرتضیٰ نے کہا کہ ماضی میں لانگ مارچ کی وجہ سے ایک پورا صوبہ مفلوج رہا ہے۔درخواست میں ماضی کی آئینی خلاف ورزیوں کا حوالہ بھی موجود ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگر واضح طور پر آئینی خلاف ورزی کا خطرہ ہو تو عدلیہ مداخلت کرے گی، اگر حالات خراب ہوئے تو نئی درخواست دائر کی جا سکتی ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا وفاق کو نہیں معلوم کہ اپنی ذمے داری کیسے پوری کرنی ہے؟ سپریم کورٹ انتظامی معاملات میں کیا کر سکتی ہے؟جسٹس اطہرمن اللّٰہ نے کہا کہ ریاست طاقتور اور با اختیار ہے۔
دلائل سننے کے بعد عدالت عظمیٰ نے پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے خلاف درخواست غیر مؤثر ہونے پر نمٹا دی۔