ممنوعہ فنڈنگ ضبطگی کیس: الیکشن کمیشن کا تحریک انصاف کے اعتراضات پر فیصلہ محفوظ
الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ آئی پھر اس پر سماعت بھی ہوتی رہی، کیا ضروری ہے کہ اب دوبارہ سے سماعت ہو؟ انور منصور نے کہا کہ سکروٹنی کے وقت کوئی شوکاز نوٹس جاری نہیں ہوا تھا۔

الیکشن کمیشن نے ممنوعہ فنڈنگ ضبطگی کیس میں شوکاز نوٹس کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کے اعتراضات پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
الیکشن کمیشن میں پاکستان تحریک انصاف کے وکیل انور منصور خان اور الیکشن کمیشن کے ایڈیشنل ڈی جی قانون نے ممنوعہ فنڈنگ ضبطی کیس میں شوکاز نوٹس کے حوالے سے دلائل دیے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف بھی الیکشن کمیشن میں پیش ہوئے۔
یہ بھی پڑھیے
دہشتگردی میں 50 فیصد اضافہ ہوگیا ہے مگر حکمرانوں کو این آر او ٹو کی فکر ہے، عمران خان
پرویز الہیٰ وزارت اعلیٰ کے لیے پی ڈی ایم کے امیدوار ہوسکتے ہیں، مونس الہیٰ کا ‘ایبسولوٹلی ناٹ’
پی ٹی آئی کے وکیل انور منصور نے کہا کہ قانون کے مطابق نوٹس الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری ہونا چاہیے تھا مگر فنڈنگ ضبط ہونے کا نوٹس پولیٹیکل پارٹیز آرڈر کے رول 6 کے تحت دیا گیا لیکن تحریک انصاف کو نوٹس سیکریٹری نے جاری کیا ہے، کہیں لکھا بھی نہیں کہ ایسا کمیشن کے حکم پر کیا گیا۔
انور منصور نے کہا کہ کمیشن کی ہدایت پر بھی شوکاز نوٹس نہیں بھیجا جا سکتا، قانون واضح ہے کہ نوٹس الیکشن کمیشن نے ہی جاری کرنا ہوتا جبکہ الیکشن کمیشن کا مطلب چیف الیکشن کمشنر اور ممبران ہیں۔
ممبر سندھ نثار درانی نے کہا کہ نوٹس سیکریٹری بھی جاری کرے تو فرق کیا پڑے گا؟ جس پر انور منصور نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے علاوہ کسی کو نوٹس جاری کرنے کا اختیار ہی نہیں، سپریم کورٹ کے اس نقطے پر فیصلے موجود ہیں کہ کمیشن کا اختیار کوئی اور استعمال نہیں کر سکتا۔
ممبر سندھ نثار درانی نے کہا کہ اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ آئی پھر اس پر سماعت بھی ہوتی رہی، کیا ضروری ہے کہ اب دوبارہ سے سماعت ہو؟ انور منصور نے کہا کہ سکروٹنی کے وقت کوئی شوکاز نوٹس جاری نہیں ہوا تھا۔
ممبر سندھ نثار درانی نے کہا کہ کمیشن نوٹس پر سماعت ہی کر رہا ہے جبکہ مبر بلوچستان شاہ محمد جتوئی نے کہا کہ ٹرائل تو مکمل ہوچکا ہے اب صرف عملدرآمد ہو رہا۔
انور منصور نے کہا کہ سکروٹنی کمیٹی رپورٹ پر فیصلہ الگ اور فنڈنگ ضبطگی کی کارروائی الگ ہیں، اعلیٰ عدلیہ قرار دے چکی ٹرائل کا آغاز ہوتا ہی شوکاز کے بعد ہے۔
انور منصور نے کہا کہ سیکریٹری الیکشن کمیشن کے فیصلہ سے آگاہ کر سکتا ہے خود فیصلہ نہیں دے سکتا۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ کیا کابینہ کے فیصلوں پر وزراء کے دستخط ہوتے ہیں یا منٹس بنتے ہیں؟ وکیل پی ٹی آئی نے بتایا کہ منٹس میں لکھا جاتا ہے کہ کس نے حمایت کی اور کس نے مخالفت، جس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ کابینہ کا سیکریٹری رہا ہوں، منٹس میں یہ نہیں لکھا جاتا۔
انور منصور نے جواب الجواب میں کہا کہ کسی عدالت نے نہیں کہا کہ صرف دستاویزات پر فیصلہ کیا جائے، پہلے جو کارروائی ہوئی وہ سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ پر تھی اور اب کارروائی شوکاز نوٹس پر ہے۔
دلائل سننے کے بعد الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے اعتراضات پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
پاکستان کے پولیٹکل پارٹیز آرڈر 2002 اور الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 204 میں فارن فنڈنگ یا بیرونی ممنوعہ فنڈنگ کا ذکر ہے۔
اس قانون میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی شراکت داری یا چندہ براہ راست یا بالواسطہ طور پر کسی بھی غیر ملکی ذریعے سے ہو چاہے وہ کسی بیرونی ملک سے ہو ، کسی ملٹی نینشل پبلک یا پرائیویٹ کمپنی، کوئی پروفیشنل ادراہ یا انفرادی طور ممنوعہ فنڈنگ ہوگی۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر ممنوعہ فنڈنگ ہو تو اس کو بحق سرکار ضبط کیا جاسکتا ہے۔