سینیٹر اعظم سواتی کی ضمانت بعداز گرفتاری، اسلام آباد ہائی کورٹ میں فیصلہ محفوظ
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا ہے اعظم سواتی کے معاملے کو ہمیشہ کے لیے نمٹانے کے لیے لارجز بینچ تشکیل دے رہے ہیں اس لیے سماعت آئندہ ہفتے ہوگی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی رہنما و سینیٹر اعظم سواتی کی متنازع ٹویٹ کیس میں درخواستِ ضمانت پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔ جب کہ اعظم سواتی نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ پر عدم اعتماد کا خط واپس لے لیا۔
آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے پی ٹی آئی رہنما و سینیٹر اعظم سواتی کی جانب سے دائر ضمانت کی درخواست کی سماعت کی۔
اعظم سواتی کے صاحبزادے نے عدالت کو بتایا کہ وہ اپنے والد کی جانب سے لکھا گیا خط پڑھنا چاہتے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ خط عدالت کے سامنے موجود ہے، اس معاملے کو ہمیشہ کے لیے طے کرنا چاہتے ہیں، اس کیس میں لارجر بینچ تشکیل دیں گے۔
یہ بھی پڑھیے
پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دے دی
سلیم صافی کے خلاف نازیبا زبان کا استعمال: قاسم سوری پر این پی سی میں داخلے پر پابندی
ان کا کہنا تھاکہ خط آجاتا ہے کہ جج جانبدار ہے، اس قسم کے خطوط عدالت عمومی طور پر نہیں دیکھتی۔
اعظم سواتی کے وکیل بابر اعوان بابر اعوان نے استدعا کی کہ عدالت آج ہی اس معاملے کو دیکھے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے سینئر ججز ابھی چھٹی پر ہیں، آئندہ ہفتے کے لیے لارجر بنچ تشکیل دیں گے۔
وکیل بابر اعوان نے مشورے کے لیے مہلت ملنے کے بعد عدالت کو بتایا کہ مجھے ہدایت دی گئی ہے کہ خط واپس لے لیں، جس پر اعظم سواتی کے بیٹے بیرسٹر عثمان نے کمرہ عدالت میں بابر اعوان سے مشاورت کے بعد خط واپس لے لیا۔
اعظم سواتی کے وکیل نے دلائل میں مؤقف اختیار کیا کہ سندھ بلوچستان کی ہائیکورٹس نے اعظم سواتی کے خلاف مقدمے ختم کردیے۔
ان کا کہنا تھاکہ انہوں نے کبھی ایسی ایف آئی آر نہیں دیکھی جس میں ٹائم اور وقوعے کی جگہ نہ لکھی ہو۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ایس او پیز کو فالو نہیں کیا گیا؟۔جس پر وکیل نے جواب دیا جی بالکل ! مجھے انہوں نے بتانا ہے کہ میرے موکل کے خلاف کیا الزامات ہیں۔ جب انصاف کے تقاضے ہی پورے نہیں ہوئے تو فیئر ٹرائل کیسے ہو گا۔
عدالت نے کہا کہ قانون کے سامنے کوئی اچھا برا نہیں جب تک کہ اس پر جرم ثابت نہ ہو جائے۔ کیا کسی کا کوئی بیان ہے کہ اس نے کہا ہو کہ میرے بیان کی وجہ سے کسی کو قتل کرنا چاہتا ہے۔
دوران سماعت ڈپٹی اٹارنی جنرل نے دلائل کے لیے مزید وقت کی استدعا کی جب کہ ایف آئی اے نے بتایا کہ 24 دسمبر کو چالان جمع ہو چکا جس کی کل 3 جنوری کو سماعت ہے۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ انہوں نے جرم دوبارہ کیا ہے پہلے بھی ایک کیس زیر سماعت ہے۔ ایف آئی اے نے بتایا کہ اعظم سواتی نے ٹوئٹر اکاؤنٹ سرنڈر نہیں کیا۔
عدالت نے ایف آئی اے حکام سے کہا کہ آپ نے پہلے خود ہی فزیکل ریمانڈ ختم کیا۔
ایف آئی اے نے بتایا کہ اعظم سواتی نے ٹوئٹ کا انکار نہیں کیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اعظم سواتی کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔