اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت نے برسوں  تک تمام اداروں کومفلوج رکھا، پلڈاٹ

عمران  خان کے دور میں ملک میں  غیر علانیہ آمریت تھی، اتحادی حکومت فوج کی حمایت کے بغیر اقتدار حاصل نہیں کرسکتی تھی،  فوجی کمان کی تبدیلی کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے سیاست میں مداخلت کا ثبوت نہیں ملا، خرابی دور کرنے کیلیے غیرآئینی کارروائیوں کیخلاف سنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے،2022 میں جمہوریت کی حالت زار پر رپورٹ

پلڈاٹ کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت نے برسوں  تک  تمام اداروں کومفلوج رکھا، عمران  خان کے دور میں ملک میں  غیر علانیہ آمریت تھی، اتحادی حکومت فوج کی حمایت کے بغیر اقتدار حاصل نہیں کرسکتی تھی ۔

 فوجی کمان کی تبدیلی کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے سیاست میں ملوث ہونے کا ثبوت نہیں ملا، اسٹیبلشمنٹ  سیاست سے الگ رہنے کے عزم پر قائم رہے تو جمہوریت میں بہتری کی امید ہے۔، خرابی دور کرنے کیلیے غیرآئینی کارروائیوں کیخلاف سنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیے

مریم نواز شریف مسلم لیگ (ن) کی سینئر نائب صدر مقرر

گوادر میں حق دو تحریک کے بانی مولانا ہدایت الرحمان کیخلاف قتل کا مقدمہ درج

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیولپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کی رپورٹ کے مطابق فوجی کمان کی تبدیلی کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے سیاست میں ملوث ہونے کا ثبوت نہیں ملا، اس عدم مداخلت کے فوائد شاید فوری حاصل نہ ہوں، مگر اسٹیبلشمنٹ اگر سیاست سے الگ رہنے کے عزم پر قائم رہے تو جمہوریت میں بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔

 پلڈاٹ نے جمہوریت کی حالت زار پر رپورٹ میں لکھا ہے کہ 40 برس میں اسٹیبلشمنٹ نے سیاست دانوں سے مل کر جو چالیں چلیں، وہ اور جمہوری نظام کے ساتھ کھیلا گیا کھیل کُھل کر بے نقاب ہوا۔

 

اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت نے پارلیمنٹ، سیاسی جماعتوں، عدلیہ، اور بیوروکریسی سمیت تمام اداروں کو مفلوج کیے رکھا، خرابی کے خاتمے کےلیے غیرآئینی کارروائیوں کے خلاف سنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے۔

پلڈاٹ کے مطابق الیکشن کمیشن نے آئینی خودمختاری کا استعمال کیا،ادارے کا سخت الزامات کا مقابلہ کرنا جمہوریت کےلیے امید کی کرن ہے۔پلڈاٹ نے لکھا کہ نومبر 2022 میں آرمی چیف نے سبکدوش ہوتے وقت کہا کہ اب فوج سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی۔

 فوجی کمان کی تبدیلی کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے سیاست میں ملوث ہونے کا ثبوت نہیں ملا، اس عدم مداخلت کے فوائد شاید فوری حاصل نہ ہوں لیکن اگر اسٹیبلشمنٹ سیاست سے الگ رہنے کے عزم پر قائم رہے تو جمہوریت میں بہتری کی امید ہے۔

عمران خان نے بطور وزیراعظم اپنے طرز حکومت کا ذمے دار فوج کو نہیں کہا، لیکن اقتدار جانے کے بعد مانا کہ انہیں فوجی حمایت حاصل تھی، بجٹ منظور کروانے اور چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کےلیے انہوں نے فوج سے حمایت مانگی تھی۔

پلڈاٹ کے مطابق عمران خان کی حکومت تب ختم ہوئی جب فوجی حمایت ہٹالی گئی۔پلڈاٹ نے لکھا کہ یہ حقیقت ہے کہ اتحادی حکومت فوج کی حمایت کے بغیر اقتدار حاصل نہیں کرسکتی تھی۔

 رپورٹ میں سپریم کورٹ کے طرز عمل کے بارے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے ذریعے آئین کو برقرار رکھنے کی جھلک دیکھنے کو ملی کیونکہ اس نے 7 اپریل کو ڈپٹی سپیکر کے فیصلے کو ایک طرف رکھ دیا اور یہ بھی حکم دیا کہ اسمبلی تحلیل کرنے کا صدر کو وزیر اعظم کا مشورہ بھی اس کے برعکس تھا۔

لیکن 17 مئی کو  آئین کے آرٹیکل 63اے کی تشریح کرتے ہوئے، سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ دیا کہ کسی تحریک کے نتائج کا تعین کرتے وقت قانون سازوں کی طرف سے ان کی پارٹی کے موقف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈالے گئے ووٹوں کو مدنظر نہیں رکھا جانا چاہیے۔

رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان  جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے ججوں کے لیے واضح تقرری اور ترقی کے معیار پر آمادہ  ہونے اور اس پر اتفاق کرنے  میں  مزاحمت کی۔ سپریم کورٹ کے موجودہ جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جے سی پی کے دیگر ارکان کو چیف جسٹس بندیال کے نام عوامی خط لکھنے کا سہارا لینا پڑا جس میں ججوں اور عوام کے لیے تقرری کے شفاف، مستقل، اچھی طرح سے طے شدہ معیار کا مطالبہ کیا گیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی جانب سے آزادی کے لیے طویل انتظار اور سال کے دوران فسطائی حملوں کا مقابلہ کرنا جمہوریت کے لیے امید کی ایک کرن تھی لیکن  سال کے اختتام پر  کچھ عدالتی فیصلوں، خاص  کر ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں دھاندلی کے مرتکب پولنگ عملے کے خلاف  الیکشن کی کارروائی کو کالعدم قرار دینے  سے سنگین سوالات اٹھے ہیں کہ کیا الیکشن کمیشن  آزادی کا راستہ برقرار رکھ سکے گا؟

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی سرکردہ سیاسی جماعتوں کی انتظامی اور مالی طور پر خودمختار مقامی حکومتوں کے قیام میں  مزاحمت عوام کو مقامی سطح پر اپنی مرضی کی  حکومتیں منتخب کرنے کے حق سے محروم کر رہی ہے۔

متعلقہ تحاریر