لالا عبداللطیف آفریدی کون تھے؟

لطیف آفریدی سنہ 1968 میں گریجویشن کرنے کے بعد وکالت کے پیشے سے منسلک ہو گئے۔ تین دہائیوں تک ہائی کورٹ میں وکالت کرنے کے بعد وہ سنہ 2006 میں سپریم کورٹ کے وکیل بنے۔

لالا لطیف آفریدی 30 اکتوبر کو سپریم کورٹ بار کے صدر منتخب ہوئے تو سینئر صحافی حامد میر نے ٹویٹ کی۔ "مادر ملّت زندہ باد کا نعرہ لگا کر غدار قرار پانے والے لالہ عبداللطیف آفریدی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نئے صدر منتخب ہو گئے۔ 1964 میں پشاور یونیورسٹی کے طالب علم تھے ، مادر ملّت کی حمائت کرنے پر یونیورسٹی سے نکال دئیے گئے تھے لیکن آج مادرملّت کے پیروکاروں نے انہیں پھر عزت بخشی۔”

عبداللطیف آفریدی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے 76 برس کی عمر میں صدر منتخب ہوئے تھے۔

وہ ان افراد میں شامل تھے جو 70 کی دہائی کے بعد ملک میں جتنے بھی مارشل لا نافذ کیے گئے اور پھر ملک میں حزب مخالف کی جتنی تحاریک چلیں تو وہ ہر بار جیل گئے۔

یہ بھی پڑھیے

عمران خان اور فواد چوہدری کے وارنٹ گرفتاری معطل کردیئے گئے

ملک کی معاشی مشکلات سے نمٹنے کیلئے بینکرز کی اسحاق ڈار کو تجاویز

سابقہ قبائلی علاقے ضلع خیبر کی وادی تیراہ سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ لطیف آفریدی کا سیاسی تعلق عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) سے ہے۔ گزشتہ برس جولائی میں ان کی جماعت اے این پی نے انضباطی کارروائی کرتے ہوئے ان کی بنیادی رکنیت معطل کر دی تھی جسے بعد میں بحال کر دیا گیا۔

ان کی آواز اور دبنگ انداز زمانہ طالب علمی سے ہی ان کی پہچان تھا۔ انھیں محترمہ فاطمہ جناح کو انتخابات میں حمایت کرنے کی پاداش میں یونیورسٹی سے نکال دیا گیا تھا۔ پہلے فوجی صدر ایوب خان کے دور میں انھیں طالبعلم رہنما کی حیثیت سے پابند سلاسل رکھا گیا۔ وہ بطور سیاسی کارکن سابق ڈکٹیٹر ضیا الحق کے دور میں بھی پانچ مرتبہ جیل گئے۔

پھر سنہ 2007 میں انھوں نے ملک میں پرویز مشرف کی جانب سے لگائی جانے والی ایمرجنسی کی شدید مخالفت کی۔

اس بار وہ جیل تو نہیں گئے لیکن چھ اکتوبر سنہ 2007 کو ہی خیبر پختونخوا اسمبلی کے گیٹ پر جب وہ پرامن احتجاج کر رہے تھے تو بکتر بند گاڑی نے انھیں روند ڈالا جس کی وجہ سے ان کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی۔ جس کے بعد اب وہ چھڑی کے سہارے عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں۔

لطیف لالا کا سیاسی سفر

لطیف آفریدی سنہ 1968 میں گریجویشن کرنے کے بعد وکالت کے پیشے سے منسلک ہو گئے۔ تین دہائیوں تک ہائی کورٹ میں وکالت کرنے کے بعد وہ سنہ 2006 میں سپریم کورٹ کے وکیل بنے۔

وہ چھ بار پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر رہ چکے ہیں۔ وہ پاکستان بار کونسل کے نائب صدر بھی رہ چکے ہیں اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے ممبر بھی۔

سنہ 1979 میں غوث بخش بزنجو کی پاکستان نیشنل پارٹی میں شامل ہوئے پھر اس جماعت کا عوامی نیشنل پارٹی میں انضمام ہوا۔ لطیف آفریدی رکن قومی اسمبلی بھی منتخب ہوئے۔

کچھ عرصہ نیشنل عوامی پارٹی اجمل خٹک سے وابستہ ہوئے لیکن پھر اے این پی کا حصہ بن گئے۔

عبداللطیف آفریدی نے ہزاروں مزدوروں، سیاسی کارکنوں اور شہریوں کے مقدمات بغیر فیس کے لڑے ہیں۔ ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں انسانی حقوق سے متعلق درخواستوں کی پیروی کرنے کے ساتھ ساتھ پشتون تحفظ موومنٹ کے خلاف صوبہ خیبر پختونخوا میں جتنے بھی مقدمات درج کیے گئے ان میں سے زیادہ تر مقدمات کی پیروی لطیف آفریدی کرتے رہے ہیں۔

صوبہ خیبر پختونخوا میں فوج کے زیر انتظام چلنے والے حراستی مراکز کے خلاف درخواستوں کی پیروی بھی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نو منتخب صدر کرتے رہے ہیں۔

لطیف خان آفریدی ان وکلا میں شامل تھے جو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر ہونے والے صدارتی ریفرنس کی مخالفت کرتے رہے اور اب اس ریفرنس پر سپریم کورٹ کے دس رکنی بینچ کا فیصلہ آنے کے بعد صدر اور وزیراعظم کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے رہے تھے۔

خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کے جج آفتاب آفریدی کے 4 اپریل 2021 کو قتل کے واقعے میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر لطیف آفریدی اور ان کے بیٹے دانش آفریدی سمیت پانچ افراد کو ملزم نامزد کیا گیا تھا۔

جج آفتاب آفریدی، ان کی اہلیہ، حاملہ بہو اور کم سن پوتے کو نامعلوم افراد نے گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔ یہ واقعہ موٹروے پر ضلع صوابی کی حدود میں پیش آیا تھا۔

عبداللطیف آفریدی ایڈووکیٹ نے اس واقعے کے حوالے سے بیان میں کہا تھا کہ وہ جج آفتاب آفریدی کے قتل کی مذمت کرتے ہیں اور یہ کہ اُن کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لطیف آفریدی کا کہنا تھا کہ پولیس اس حوالے سے جس طرح کی انکوائری کرنا چاہے وہ اُس کے لیے تیار ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ پولیس اگر کہے گی تو وہ تفتیش میں شامل ہونے کے لیے بھی تیار ہیں اور انھیں یقین ہے کہ سچ ضرور سامنے آئے گا۔

متعلقہ تحاریر