پارلیمنٹ نیب کو ختم کردے تو کیا یہ اقدام چیلنج ہوسکتا ہے؟ سپریم کورٹ کا سوال

عدالت عظمیٰ نے کہا ہے کہ کیا عدالت یہ کہہ کر نیب کو بحال کر سکتی ہے کہ احتساب ختم ہوگیا؟۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ قومی احتساب بیورو (نیب) کو ختم کردے تو کیا یہ اقدام چیلنج کیا جا سکتا ہے؟ کیا عدالت یہ کہہ کر نیب کو بحال کر سکتی ہے کہ احتساب ختم ہوگیا؟۔ وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا ہے کہ پارلیمان کو قانون سازی کا اختیار ہے، عدالت کو نیب ترامیم کالعدم کرنے پر بتانا ہوگا کہ نیب ترامیم جیسی قانون سازی کیوں نہیں ہوسکتی۔؟

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست کی سماعت کی۔

مقدمہ میں وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا سلسلہ جاری رکھا۔ ان کا کہنا تھاکہ صرف وہی قانون کالعدم ہو سکتا ہے جس کی آئین میں ممانعت ہو جب کہ عدلیہ کے اختیارات کم کرنے کیلئے کی گئی قانون سازی بھی کالعدم ہوسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

پارٹی میں سچ بولنے پر مصطفیٰ نواز جیسے نتائج کا ڈر ہے، ملک احمد خان

نگراں وزیراعلیٰ الیکشن کمیشن نے لگایا تو عدالت میں چیلنج کریں گے، چوہدری پرویز الہیٰ

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا پھانسی کی سزا ختم کرنا آئینی عمل ہوگا؟ اگر پارلیمنٹ نیب کو ہی ختم کردے تو کیا اسے چیلنج کیا جا سکتا ہے؟ کیا عدالت یہ کہہ کر نیب کو بحال کر سکتی ہے کہ احتساب ختم ہوگیا؟۔

مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ پارلیمان کو قانون سازی کیساتھ قانون واپس لینے کا بھی اختیار ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ شرعی قانون میں سزائے موت موجود ہے، کیا شرعی اصولوں کیخلاف قانون سازی کی جا سکتی ہے؟ درخواست گزار کے مطابق احتساب اسلام اور آئین کا بنیادی جزو ہے۔

حکومتی وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اسلام میں دیت اور قصاص کا تصور بھی موجود ہے، ورثاء دیت کے عوض جرم معاف کر سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا تعزیرات پاکستان ختم ہونے سے بنیادی حقوق متاثر نہیں ہونگے؟ نیب پبلک پراپرٹی کے مقدمات بناتا ہے جو عوام کی ملکیت ہوتی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ عدالت قوانین کا جائزہ آئین اور بنیادی حقوق کے تناظر میں ہی لے سکتی ہے، کیا عدالت کچھ اور نہ ملنے پر شرعی تناظر میں قوانین کا جائزہ لے سکتی ہے؟۔

مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ شریعت کے تحت قوانین کا جائزہ صرف شرعی عدالت لے سکتی ہے، نیب ترامیم کا جائزہ اسلامی اصولوں کے تناظر میں نہیں لیا جا سکتا، اجماع اور اجتہاد کے اصول ریاستی ادارہ پارلیمان استعمال کر رہا ہے۔

مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ احتساب کے تمام قوانین کا اطلاق ہمیشہ ماضی سے ہوا ہے، نیب ترامیم کا ماضی سے اطلاق ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ قرآن میں امانت اور خیانت کے اصول واضح ہیں، خائن کیلئے قرآن کریم میں سخت الفاظ استعمال ہوئے ہیں، عدالت میں بحث جرم کی ہیئت تبدیل کرنے کی ہے، سزا کچھ بھی ہو جرم تو جرم ہی رہتا ہے۔

عدالت نے درخواست کی مزید سماعت 7 فروری تک ملتوی کردی۔

متعلقہ تحاریر