"مم” کوئٹہ میں جس کے خوف کا ایک صدی تک راج رہا

کوئٹہ میں ایک صدی سے زائد عرصے تک مقبول رہنے والی یہ دیومالائی داستان شاید نئی نسل کے لئے اتنی پُرکشش نہ ہو مگر کوئٹہ کی یخ بستہ راتوں کے سناٹے میں جب کوئی پرانی نسل (جنریشن) سے تعلق رکھنے والا شخص اکیلا سفر کررہا ہوتا ہے تو "مم" کا خیال اب بھی اس کی رگوں میں سنسنی دوڑا دیتا ہے۔

"مم” کا کردار اہم بھی ہے اور دلچسپ بھی، اس پُراسرار اور دہشت ناک کردار پر مشتمل دیو مالائی داستان نے کوئٹہ کے باشندوں کے ذہنوں پر دہائیوں تک راج کیا۔

مم کے مجسمے کی تاریخ بھی بہت دلچسپ ہے جس میں دنیا کے کئی ملکوں کے باشندوں کا تذکرہ اور تاریخی واقعات کا حوالہ ہے۔

کوئٹہ کے باشندے اور بالخصوص اس دلچسپ کردار کی حقیقت کے متلاشی دور دور سے "مم” کے مجسمے کو دیکھنے آتے تھے مگر پھر یہ کچھ ستم ظریفوں کا نشانہ بن کر اپنا وجود کھو بیٹھا اور محض تاریخ کے اوراق میں جا بسیرا کیا۔

یہ بھی پڑھیے

نیلسن پینٹ نے قبرستان کی دیوار پر قابل اعتراض سلوگن لکھ ڈالا

کیا ایک پیالی چائے کی قیمت 25ہزار ڈالر ہوسکتی ہے؟

"مم” ایک ایسا کردار جس سے کوئٹہ کا گزشتہ صدی میں پیدا ہونا والا تقریباً ہر شخص واقف ہے۔

"مم” کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ ایسا عجیب الخلقت جانور ہے جس کا چہرہ عورت کا جبکہ نچلا دھڑ شیر کا ہے۔ وہ اندھیر میں کسی بھی شخص کو اٹھا کرلے جاتی ہے اور کوئٹہ شہر کے مضافات میں واقع ہنہ اوڑک  یا کوہ مٌردار (اصل نام کوہ مہر در) کے تاریک غاروں میں لے جاتی ہے جہاں وہ  شخص کے تلوے چاٹ کر خون پی لیتی ہے جس سے وہ شخص چلنے پھرنے سے معزور ہوجاتا اور بلآخر مر جاتا۔

"مم” کی دہشت کے سبب بچے  مغرب کی اذان کے وقت اندھیرا ہونے سے قبل ہی گھروں میں پہنچ جاتے تھے اور مکانوں کے دروازے احتیاط سے مقفل کرلئے جاتے تھے۔ بکریاں اور بھیڑیں پُراسرار طور پر غائب ہونے سمیت بہت سے واقعات اور فرضی قصے اس مخلوق کی پُراسراریت میں اضافہ کرتے اور زیب داستاں کے لئے بڑھا چڑھا کر سنائے جاتے۔

"مم” کے نام سے پاکستان ٹیلی ویژن کوئٹہ سینٹر نے ڈرامہ بھی بنایا جو بہت مقبول ہوا جبکہ آج بھی "مم” کی تصاویر کوئٹہ کی بعض سرکاری عمارتوں میں لگی ہے۔

برسوں تک یہ سوال پوچھا جاتا رہا ہے کہ کیا واقعی "مم” کا کوئی وجود تھا یا سینہ در سینہ چلنے والی "مم” کی کہانی محض فرضی داستان ہے۔

اس داستان کا ایک محرک قدیم  قبرستان میں نصب وہ مجسمہ تھا جو دہائیوں تک لوگوں کے وجود میں خوف کی لہر دوڑاتا رہا اور خون آشام فرضی  داستانوں کو حقیقت ثابت کرنے کے لئے بطور دلیل پیش کیا جاتا رہا۔

"مم” ایک ایسا عفریت تھا کہ جس سے بچے تو ڈرتے ہی تھے مگر بڑے بھی اکثر اس کے وجود کے قائل دکھائی دیتے تھے۔

کوئٹہ کے باسی جب منفی درجہ حرارت کے سبب خون جما دینے والی سردی میں راتوں کو گھروں میں آگ تاپتے اور لحافوں میں دبکے "مم” کا ذکر کرتے تو شہر کی ویران سڑکوں پر زرا سی آہٹ بھی ان میں خوف کی لہر دوڑا دیتی۔

"مم” دہشت زدہ کرنے والی کہانیوں کا ایسا کردار تھا جسے بعض افراد نے دیکھنے کا دعویٰ بھی کیا جن کے مطابق "مم” ایسی شیطانی مخلوق تھی جس کا اوپری جسم انسانی مادہ اور نچلا دھڑ شیر یا کسی اور جنگلی جانور کا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا کہ "مم” دو ٹانگوں پر کھڑی اور چار ٹانگوں پر چلتی دکھائی دیتی۔ اس کے ناخن لمبے اور بال کالے گھنگھریالے جبکہ دم جھاڑی نما لمبے بالوں والی تھی۔

اس داستان نے بھی شہرت پائی کے ایک انگریز سپاہی اپنے لاپتہ ساتھی کی تلاش میں کوئٹہ کے مضافاتی علاقے کے پہاڑی غار میں جا پہنچا اور مم کا سامنا ہونے پر اس نے "مم” کو گولی مار کرہلاک کردیا جبکہ غار کے اندر سے اُس کا ساتھی بےہوش حالت میں مل گیا تھا۔

آخر یہ مجسمہ آیا کہاں سے اور کیسے کہانیوں کا موضوع بنا؟

"مم” کے مجسمے کی یہ ایک صدی سے زائد قدیم داستان بہت دلچسپ  بھی ہے اور تاریخی کا اہم باب بھی۔

بعض واقعات کے مطابق برطانیہ افواج کی مصر میں تاریخی فتوحات پر ایک رجمنٹ کو مصر کے قدیم تصوراتی مجسمے اسفنکس (Sphinx ) کی شبیہ بطور اعزاز و تکریم عطا کی گئی۔ یوں اسفنکس برطانوی فوج میں ‘خوش قسمتی’ کی علامت بن گیا۔

برطانوی دور حکومت میں ‘اینگلو افغان جنگ کے دوران  افغانوں نے تاجِ برطانیہ کا غرور خاک میں ملا دیا تھا جو تاریخ کا اہم باب ہے۔

اس جنگ میں اسفنکس رجمنٹ سے تعلق رکھنے والے انگریز سپاہیوں کی نعشیں کوئٹہ لائی گئیں اور وہ شہر کے قدیم انگریز مسیحی قبرستان (گورا قبرستان) میں سپرد خاک ہوئے جن کی یاد میں 1845 میں ان کی یاد میں اسفنکس( Sphinx) المعروف کوئٹہ اسفنکس یعنی  پتھر کا (عورت اور شیر کے دھڑ والا) مجسمہ تعمیر کیا گیا جو ایک اونچے پلیٹ فارم پر بیٹھا تھا۔

کوئٹہ کے بعض بزرگوں کو کہنا ہے کہ کوئٹہ اسفنکس (مجسمہ) بطور یادگار شاہراہ زرغون پر واقع سرینا ہوٹل سے آگے کوئٹہ کے تاریخی قلعہ "میری” کو جانے والی سڑک کے دائیں جانب نصب تھا جسے بعد میں اکھاڑ کر گورا قبرستان میں نصب کردیا گیا۔

خبروں کے مطابق 1992 میں  بعض افراد نے جو ہمسایہ ملک کے ایک واقعہ پر مشعل تھے، اس سنگی مجسمے کو  شدید نقصان پہنچا اور یوں یہ یاد گار جسے کوئٹہ کے باشندے "مم” کے نام سے پکارتے تھے، ماضی کا حصہ بن گئی جس کے ساتھ ہی مم کا کردار بھی ماضی میں کھو گیا۔

کوئٹہ میں ایک صدی سے زائد عرصے تک مقبول رہنے والی یہ دیومالائی داستان شاید نئی نسل کے لئے اتنی پُرکشش نہ ہو مگر کوئٹہ کی یخ بستہ راتوں کے سناٹے میں جب کوئی پرانی نسل (جنریشن) سے تعلق رکھنے والا شخص اکیلا سفر کررہا ہوتا ہے تو "مم” کا خیال اب بھی اس کی رگوں میں سنسنی دوڑا دیتا ہے۔

متعلقہ تحاریر