ایف 9 پارک زیادتی کیس کے ملزمان کو ماورائے عدالت قتل کیاگیا، وکیل متاثرہ خاتون

پولیس نے بدھ کی شام متاثرہ لڑکی کو بلاکر ملزمان کی شناخت کروائی، ایس پی نے ملزمان کا ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کے سوال پر اثبات میں جواب دیا،اگلے دن ملزمان کو ماردیاگیا، ایمازینب مزاری: ملزمان نے ایف 9 اور جی 9 میں کم ازکم 50 ریپ کیے، فرزانہ باری

وفاقی دارالحکومت کے ایف 9 پارک میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے والی لڑکی وکیل ایمان زینب مزاری اور سماجی کارکن فرزانہ باری نے الزام عائد کیا ہے کہ واقعے میں ملوث ملزمان کو پولیس نے جعلی مقابلے میں قتل کیا ہے۔ ملزمان کے ماورائے عدالت قتل کی تحقیقات کی جائے۔

 اسلام آباد پولیس نے جمعرات کو دعویٰ کیا تھا کہ ڈی 12 پولیس چوکی کی حدود میں مقابلے کے دوران ہلاک ہونے والے دو نوجوان ایف 9 پارک ریپ کیس میں ملوث تھے  جبکہ ان میں سے ایک ملزم ایک قتل کے مقدمے میں بھی مفرور تھا۔

 یہ بھی پڑھیے

ایف نائن اجتماعی زیادتی کیس کے ملزمان پولیس مقابلے میں ہلاک

ایف 9 پارک میں ریپ واقعے کا عینی شاہد سامنے آگیا، پیمرا نے کوریج پر پابندی لگا دی

متاثرہ لڑکی کی وکیل زینب مزاری نے کہا کہ ان کی موکل نےبدھ 15 فروری  کو ملزمان کی شناخت کی تھی، پولیس نے بدھ کی شام تقریباً ساڑھے 4 بجے ریپ کا شکار لڑکی کو آئی 9 میں کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی پولیس اسٹیشن بلایا تاکہ مشتبہ افراد کی شناخت کی جا سکے اور متاثرہ لڑکی نے شام 4 بج کر 55 منٹ پر اپنے وکلا کے پولیس اسٹیشن پہنچنے سے قبل ہی مشتبہ افراد کو شناخت کر لیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں 100 فیصد یقین کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ جن دو مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا تھا وہ 15 فروری کو آئی9 میں کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے تھانے میں پولیس کی حراست میں تھے۔

ایمان زینب مزاری  نے مزید کہا کہ  ایس ایس پی ماریہ  نے میسج  میں ملزمان کا ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کے سوال پر اثبات میں جواب دیا تھا ۔انہوں نے کہاکہ دونوں ملزمان کے تحویل میں ہونے کے باوجود پولیس کا ردعمل عجیب تھا،پہلےملزمان کا سراغ لگانے سے متعلق ٹوئٹ کیا گیاپھر اسے ڈیلیٹ کردیا گیا، پھر کہا گیا کہ ملزمان کو گرفتار کرنے کے قریب ہیں اور پھرفرضی انکاؤنٹر کی 100فیصد جھوٹی کہانی جاری کردی گئی۔

انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ مبینہ انکاؤنٹر کے بعد متاثرہ لڑکی لاشوں کی شناخت کے لیے  پمز گئی تھی، ان کی موکلہ 15 فروری کو پہلے ہی مشتبہ افراد کی شناخت کر چکی تھیں، ملزمان پولیس کی حراست میں تھے، پولیس نے انہیں قتل کر دیا، یہ کوئی انکاؤنٹر نہیں تھا، ہم سول سوسائٹی، ایک وکیل، ایک انسان کی حیثیت سے ماورائے عدالت قتل کی شدید مذمت کرتے ہیں، دنیا کا کوئی قانون آپ کو جج، جیوری اور جلاد بننے کی اجازت نہیں دیتا۔

اس  موع پر  سماجی کارکن فرزانہ باری نے بتایا کہ  ملزمان انتہائی مطلوب اور عادی مجرم تھے اور انہوں نے اسلام آباد کے ایف9 اور جی 9 کے علاقوں میں کم از کم 50 ریپ کیے تھے، پولیس کو ان کا مجرمانہ ریکارڈ بھی ملا تھا اور انہوں نے ڈکیتی کے دوران قتل بھی کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ آج کی پریس کانفرنس کا بنیادی مقصد ماورائے عدالت قتل کے کلچر کو بے نقاب کرنا ہے، ہمارے ملک ایک عدالتی نظام ہے اور چاہے کوئی شخص دہشت گرد ہو یا سخت گیر مجرم، اس کا جرم عدالت میں ثابت ہونا چاہیے۔

متعلقہ تحاریر