کمسن بچی رضوانہ تشدد کیس: عدالت نے سومیہ عاصم کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی
استغاثہ کے وکیل نے درخواست ضمانت کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ملزمہ سے ٹارچر کا آلہ برآمد کرنا ہوگا۔
اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے رضوانہ تشدد کیس کی مرکزی ملزمہ سومیہ عاصم کی درخواست ضمانت بعداز گرفتاری مسترد کردی۔
سیشن جج جج شائستہ کنڈی نے کچھ دیر قبل محفوظ کیا گیا فیصلہ سنا دیا۔
استغاثہ کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ نوعمر گھریلو ملازم کے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں ہے جس پر زخم نہ لگے ہوں۔ ان کے کیس پر پوری قوم غم اور پریشانی میں مبتلا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
آئی ایچ سی میں پی ٹی آئی سربراہ کی دفاع کا حق بحال کرنے کی درخواست دائر
اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کو اڈیالہ جیل منتقل کرنے کی درخواست 11 اگست تک ملتوی کر دی
وکیل استغاثہ نے سومیہ عاصم کی درخواست ضمانت کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ملزمہ سومیہ عاصم سے ابھی ٹارچر کا آلہ بھی برآمد کرنا بہت ضروری ہے۔
جج نے ریمارکس دیے کہ لڑکی زخمی ہے، پوچھا کس نے زخمی کیا؟
سومیہ عاصم کے وکیل نے دعویٰ کیا کہ لڑکی مٹی کھاتی تھی اور اس نے کھاد ملا کر کھا لی جس سے الرجی ہو گئی۔
وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ لڑکی کو صحت مند حالت میں اس کے والدین کے حوالے کرکیا گیا ہے۔
جج نے پوچھا کہ کیا کوئی ثبوت ہے؟ اور وکیل سے کہا کہ ایسی کوئی بات نہ کہیں جس کا آپ کے پاس ثبوت نہ ہو۔
جج کنڈی نے ریمارکس دیے کہ قانونی حوالہ دیں، اور قانون کیا کہتا ہے۔
سومیہ عاصم کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ چھ دن کے بعد کیس میں دفعہ 324 کا اضافہ کیا گیا۔ سات ماہ کی غیر قانونی حراست کا الزام ہے۔
سی سی ٹی وی فوٹیج کا حوالے دیتے ہوئے وکیل صفائی کا کہنا تھا کہ فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جب بچی کو والدین کے حوالہ کیا گیا تو بچی کی والدہ ڈھائی گھنٹے تک مسلسل موبائل فون پر کسی سے باتیں کرتی رہیں۔
وکیل نے سرگودھا اسپتال کی میڈیکل رپورٹ فراہم کرنے کی استدعا کی۔
رضوانہ کی والدہ نے عدالت کو بتایا کہ ڈرائیور نے انہیں دھمکیاں بھی دی تھیں، اس لیے وہ فوراً ڈر گئی۔
جج کنڈی نے کہا کہ وہ سب کچھ ریکارڈ پر لائیں گی، اور یہاں صرف انصاف ہوگا۔
وکیل دفاع نے بتایا کہ رضوانہ کے مطابق اسے شام 5 بجے تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جب کہ اسے رات 8 بجے بس اسٹیشن پر اس کے والدین کے حوالے کیا گیا۔ چھ گھنٹے اور 12 منٹ تک کوئی میڈیکل رپورٹ نہیں ہے، اور اس دوران چوٹیں آئیں۔
لڑکی کو کس نے زخمی کیا؟ جج کنڈی نے وکیل سے پوچھا۔
وکیل دفاع نے کہا کہ کیس رپورٹ میں کچھ نہیں لکھا گیا کہ چوٹیں کتنی پرانی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سرگودھا کے اسپتال نے انہیں فوری طور پر لاہور بھیج دیا۔
انہوں نے کہا کہ سرگودھا میں سہ پہر 3 بجے کئے گئے طبی معائنے کی رپورٹ درکار ہے کیونکہ یہ کبھی سامنے نہیں آئی۔
تشدد کیس کی تفتیش جاری ہے
ادھر اسلام آباد پولیس رضوانہ تشدد کیس کی مختلف زاویوں سے تفتیش کر رہی ہے۔ مختار نامی ٹھیکیدار جس نے رضوانہ کو نوکری پر رکھا تھا اس سے بھی تفتیش کی جا رہی ہے۔
رضوانہ کے والدین نے پولیس کو بتایا کہ پہلے انہیں لڑکی کو گھر لے جانے کے لیے بلایا گیا۔ پھر سومیہ عاصم نے کہا کہ وہ رضوانہ کو چونگی نمبر 26 پر چھوڑ دیں گے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ تحقیقاتی ٹیم کے عہدیدار سرگودھا میں بھی موجود ہیں جبکہ دوسری ٹیم لاہور میں ہے۔
سرگودھا میں پولیس اہلکار متاثرہ خاندان سے متعلق معلومات اکٹھی کر رہے ہیں۔
جے آئی ٹی کی جانب سے تشدد کا نشانہ بننے والی لڑکی کی فوٹیج بھی ریکارڈ کا حصہ بنا دی گئی ہے۔ جے آئی ٹی ارکان نے فوٹیج کا بغور جائزہ لیا اور اسے ریکارڈ میں شامل کیا۔
جے آئی ٹی نے بچی کے والدین کو طلبی کا نوٹس جاری کیا ہے تاہم وہ ابھی تک پیش نہیں ہوئے۔
والدین نے جواب دیا ہے کہ رضوانہ زیر علاج ہے۔ جب اس کی حالت بہتر ہوگی تو وہ پیش ہوں گے اور اپنا بیان ریکارڈ کرائیں گے۔
جے آئی ٹی نے جج کی اہلیہ صومیہ عاصم کا بیان قلمبند کر لیا۔