شہباز گل کا جسمانی ریمانڈ: ہائی کورٹ کا سیشن جج کو نظرثانی درخواست پر فیصلے کا حکم

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ریمانڈ دینا ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار نہیں، چاہے جرم کتنا ہی سنگین ہو۔

شہباز گل کیس میں بڑی پیش رفت،اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکومت کی درخواست منظور کرتے ہوئے سیشن عدالت کو رہنما تحریک انصاف کےجسمانی ریمانڈ کی نظرثانی درخواست آج ہی دوبارہ سن کر میرٹ پر فیصلہ کرنےکا حکم دے دیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق  نے پی ٹی آئی کے بغاوت پر اکسانے کے الزام میں گرفتار  رہنما شہباز گِل کے مزید جسمانی ریمانڈ سے متعلق درخواست کی سماعت کی اور فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

شہباز گل کو برہنہ کرکے اس پر انسانیت سوز تشدد کیا جارہا ہے، عمران خان

وفاقی حکومت کا حاجیوں کو ڈیڑھ لاکھ روپے واپس کرنے کا فیصلہ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کچھ دیر بعد ، محفوظ کیا گیا فیصلہ سناتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شہباز گل کے مزید ریمانڈ سے متعلق ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کی درخواست منظور کرلی اور سیشن عدالت کو رہنما تحریک انصاف کے مزید جسمانی ریمانڈ کی نظرثانی درخواست دوبارہ سننے کو حکم دے دیا۔عدالت کا حکم میں کہنا تھا کہ جوڈیشل مجسٹریٹ کے آرڈر کے خلاف درخواست قابل سماعت ہے، ایڈیشنل سیشن جج  آج ہی درخواست سن کر میرٹ پر فیصلہ کریں۔عدالت نے حکم دیا کہ فریقین سیشن جج کے پاس پیش ہوکر دلائل دیں۔

ایڈووکیٹ جنرل نے شہباز گل کے ریمانڈ کی استدعا مسترد ہونے پر دوبارہ جائزے کی درخواست دائر کی تھی جسے سیشن جج کی عدالت نے ناقابل سماعت قرار دے دیا تھا۔جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے سیشن جج کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے آج  فیصلے میں کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل کی درخواست سیشن عدالت میں زیر التوا تصور کی جائے جبکہ ایڈیشنل سیشن جج شہباز گل کی ضمانت کی درخواست کے ساتھ ریمانڈ کی نظرثانی درخواست پر بھی دلائل سنیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس سے قبل درخواست کی سماعت کے موقع پر شہباز گل کے وکلا نے دلائل میں سیاسی حوالہ دینا چاہا تو عدالت  نے انہیں روک دیا اور کہا کہ سیاسی حوالہ نہ دیا،عدالت صرف قانونی نکتہ دیکھتی ہے، ملزم جو بھی ہے اس عدالت کے سامنے یہ بات بے معنی ہے،  عدالت کو یہ بتائیں کہ جوڈیشل مجسٹریٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کیسے قابل سماعت تھی؟ ملزم کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا جائے پھر تو بات ہی ختم ہوگئی۔

عدالت عالیہ کا کہنا تھا کہ ابھی ریمانڈ دینے کی درخواست کے میرٹس پر نہیں جا رہے، پہلے اس کے قابل سماعت ہونے پر دلائل سنیں گے، سرکاری وکیل نے تو یہ بھی استدعا کر رکھی ہے کہ جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ریمانڈ دینا ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار نہیں، چاہے جرم کتنا ہی سنگین ہو، ریمانڈ کا معاملہ مجسٹریٹ نے دیکھنا ہے۔

متعلقہ تحاریر