ایاز امیر کی بہو کے قتل کے الزام میں گرفتاری ، قانونی  یا سیاسی خاربازی

قانونی ماہرین کا کہنا ہے اسلام آباد پولیس کا سینئر صحافی ایاز امیر کے خلاف ایف آئی آر کا اندراج اور پھر گرفتاری قانون سے بالاتر اقدام ہے۔

اسلام آباد پولیس نے سینئر صحافی ایاز امیر کو گرفتار کرلیا ہے ، ایاز امیر کی گرفتاری ان کی بہو کے قتل کیس میں کی گئی ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ قتل بیٹے نے کیا ہے ایسے میں ایاز امیر کی گرفتاری قانون سے بالاتر اقدام ہے۔

تفصیلات کے مطابق سینئر صحافی ایاز امیر اور ان کی سابقہ اہلیہ کے گرفتاری کے وارنٹ گذشتہ روز جاری کیے گئے تھے ، جس کی بنا پر ان کی آج گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کینیڈین نژاد اہلیہ کو قتل کرنے کے الزام میں ایاز امیر کے صاحبزادے گرفتار

کراچی میں ڈاکو ڈکیتی کے نئے نئے طریقے ایجاد کرنے لگے

اسلام آباد پولیس ایاز امیر کے جسمانی ریمانڈ کے لیے آج انہیں علاقہ مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کرے گی۔

مقتولہ سارہ انعام کے چچا نے ایاز امیر اور ان کی سابقہ اہلیہ پر سارہ کو قتل کروانے کا الزام عائد کیا تھا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ مقدمے میں 302 کے ساتھ دفعہ 109 بھی شامل کی گئی ہے۔ ایاز امیر کی سابقہ اہلیہ کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس کی ابتدائی تفتیش کے دوران ملزم شاہنواز نے اپنی مقتولہ بیوی سارہ انعام کو اپنی پہلی دو شادیوں کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔ وہ بیرون ملک مقیم سارہ سے حیلے بہانوں سے پیسے بھی منگواتا تھا۔

پولیس ذرائع کے مطابق سارہ انعام نے ملزم شاہنواز سے رقم کا تقاضہ کیا تو ملزم نے تیش میں آکر اسے قتل کردیا۔

واضح رہے کہ اسلام آباد پولیس نے معروف صحافی ایاز امیر کے صاحبزادے کو اپنی کینیڈین نژاد بیوی کو مبینہ طور پر قتل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا ، خاتون قتل سے ایک روز قبل ہی دبئی سے اسلام آباد پہنچی تھیں ، وہ دبئی میں جاب کرتی تھیں۔

قانونی ماہرین نے سینئر صحافی ایاز امیر کی گرفتاری کو غیرقانونی اور آئین کے خلاف قرار دیا ہے ، ان کا کہنا ہے کہ ایاز امیر نے قتل کی مذمت کی تھی ، اور کہا تھا کہ خدا کسی کو ایسا وقت نہ دکھائے ، اور جب قتل ہوا تو ایاز امیر وہاں پر موجود بھی نہیں تھے ، ایسے صورتحال میں ان پر ایف آئی آر کا اندراج ہونا اور گرفتاری عمل آنی قانون سے کھلواڑ ہے۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے جب چچا کی جانب سے ایاز امیر اور ان سابقہ اہلیہ کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی جارہی تھی تو پولیس کا سوال کرنا بنتا تھا کہ کن ثبوتوں کی بنا پر ان پر 302 اور 109 کا پرچہ کٹوایا جارہا ہے۔

متعلقہ تحاریر