ارکان اسمبلی پارلیمان میں بیٹھ کر مسائل حل کریں ، اسپیکر کو حکم نہیں دے سکتے، عدالت عالیہ

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ کا کہنا ہے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے اسپیکر کو آرڈر جاری نہیں کرسکتے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں پاکستان تحریک انصاف کے 10 ارکان کی جانب سے پارٹی کے 11 ارکان کے استعفوں کے خلاف دائر درخواست پر چیف جسٹس نے بڑا حکم جاری کردیا۔

پاکستان تحریک انصاف کے 10 ارکان کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کی۔

پی ٹی آئی کے 10 ارکان کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی جانب سے آئین سے ماوراء 11 استعفوں منظور کیے جانے کے خلاف درخواست دائر کی گئی تھی۔

پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ ان کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک سو تیئس اراکین قومی اسمبلی میں استعفے دے دیئے تھے موجودہ اسپیکر نے ان میں سے کچھ استعفے منظور کئے جبکہ 112 ارکان کے استعفوں پر غور ابھی زیر التوا ہے۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ اسپیکر تحریک انصاف کے ان 112 اراکین کو بلائیں ، اسپیکر تحقیق کرلیں جنھوں نے آئین کی شق 64 کے تحت استعفے دیے تھے۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ عدالت اسپیکر کو ہدایت دے کہ وہ استعفوں کی منظوری سے متعلق اپنی آئینی ذمہ داری پوری کریں۔

دوران سماعت پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ میرے موکلین کا موقف بڑا واضح ہے کہ ہم مشروط استعفے دیئے تھے۔ ہمارا سیاسی مقصد 123 ارکان کی نشستیں خالی کرنا تھا۔ ہمارا وہ مقصد پورا نہیں ہوا اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ ہم سب ایم این ایز ہیں۔

اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ جن ارکان کے استعفے منظور نہیں ہوئے وہ جاکر اسمبلی میں بیٹھیں۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام کو پارلیمنٹ کے اندر ہی ختم کیا جانا چاہیے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا پارلیمنٹ کی بہت بے توقیری ہو گئی ، جمہوریت کا مذاق نہ بنائیں۔ یہ چیز باتوں سے نہیں آپ نے اپنے عمل سے ثابت کرنی ہے۔

بیرسٹر ظفر علی کا اپنے دلائل میں کہنا تھا استعفے جینوئن مگر مشروط تھے ، سب کے استعفے منظور ہونے چاہیے تھے۔

بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا اسپیکر نے ایک ساتھ استعفے منظور نہ کرکے وہ کنڈیشن ہی ختم کردی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا جب استعفے دے دیئے تھے تو منظوری اسپیکر کا اختیار ہے۔ استعفے دینا والا اس کے بعد اپنی شرائط نہیں لگا سکتا۔ پھر آپ کہتے ہیں کہ عدالت آپ کی درخواست بھی سنے۔؟

عدالت کا کہنا تھا ہم صرف سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے درخواست پر آرڈر جاری نہیں کرسکتے۔

متعلقہ تحاریر