4 اگست یوم شہداء پولیس: خیبر پولیس کے شہداء کے ساتھ امتیازی سلوک کیوں؟

ضلع خیبر میں سال 2012 سے اب تک 106 پولیس اہلکاروں نے ملک کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے مگر آج ایک مرتبہ پھر یوم شہداء پولیس پر ان کی قربانیوں کو نظرانداز کردیا گیا۔

خیبر پختون خوا سمیت ملک بھر یوم شہداء پولیس منایا جا رہا لیکن قبائلی علاقہ جات سے تعلق رکھنے والے شہداء کے ساتھ صوبائی حکمومت کا امتیازی سلوک بدستور جاری ہے۔

آج 4 اگست ملک بھر میں یوم شہداء پولیس منایا جا رہا ہے جس کا مقصد ان پولیس جوانوں کو خراج عقیدت پیش کرنا ہے جنہوں نے مادر وطن کی دفاع اور امن کے استحکام کی خاطر اپنی جانیں قربان کیں.

یہ بھی پڑھیے

پنجاب کے بعد خیبر پختون خوا اسمبلی سے چیف الیکشن کمشنر کے خلاف قرارداد منظور

پشاور میں یوم شہداء کی مرکزی تقریب شہید کمانڈنٹ صفوت غیور کی اعزاز میں منعقد کی گئی جہاں پر ایف سی اور پولیس دستوں نے انکی قبر پر حاضری دی اور پھولوں کے گلدستے پیش کئے۔

یوم شہداء پولیس کے موقع پر آئی جی خیبر پختون خوا پولیس مغظم جاہ انصاری نے اپنے پیغام میں کہا کہ امن دشمنوں کے خلاف جنگ جاری ہے پولیس کو نشانہ بنانے والوں کے خلاف گھیرا تنگ کیا ہے جیت عوام اور سیکورٹی اداروں کی ہوگی.

آئی جی کے پی کے کا کہنا تھا نائن الیون کر بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز ہوا تو پاکستانی سرحدوں سے لے کر شہری اور دیہاتی علاقوں تک اس کے اثرات پھیل گئے. پاکستانی قوم کو اس جنگ میں شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑا اور سینکڑوں کی تعداد میں شہریوں اور سیکورٹی اداروں کے اہلکاروں نے جانوں کے نذرانے پیش کئے. پاکستانی پولیس افسران اور اہلکاروں نے تربیت اور وسائل کی کمی کے باوجود شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنایا.

ان کا کہنا تھا کہ افغان بارڈرز کے قریب ہونے کی وجہ سے اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان خیبر پختون خواہ پولیس کو چکانی پڑی. پندرہ سال کی اس طویل جنگ میں خیبر پختون خواہ پولیس کے سینکڑوں جوان شہید ہوگئے جہاں پہ پولیس اسٹیشنوں پر بھاری اسلحے اور بارود کے ساتھ مسلسل حملے ہوئے. اس طرح کا ایک افسوسناک واقعہ 4 اگست 2010 کو پشاور میں ہوا ، جب دہشت گردوں نے ڈیوٹی پر موجود انسپکٹر جنرل صفوت غیور پر قاتلانہ حملہ کرکے اسے شہید کردیا.  یہ سانحہ پولیس ڈیپارٹمنٹ کے لئے ایک غیر معمولی دھچکا تھا.سن 2015 میں اس وقت کے انسپکٹر جنرل خیبر پختون خوا پولیس ناصر خان درانی نے اسی شہادت کی مناسبت سے 4 اگست کو شہدائے پولیس کا قومی دن قرار دیا تھا۔

دہشت گردی سے متاثرہ سابقہ قبائلی علاقوں میں امن کی بحالی کے بعد حکومت پاکستان نے 25ویں آئینی ترمیم کے زریعے 2018 میں ان علاقوں کو خیبر پختون خوا میں ضم کر دیا. ان علاقوں میں امن و امان کی فضاء قائم رکھنے کیلئے وقت کی اہم ضرورت پولیس فورس کی تعیناتی تھی. لہزا خیبر پختون خواہ حکومت نے لیوز اور خاصہ دار فورس کے اہلکاروں کو پولیس میں ضم کرنے کا فیصلہ کیا.

اپریل 2019 میں تقریباً 16000 خاصہ دار اور 12000 لیویز کے اہلکاروں کو خیبر پختون خوا پولیس میں ضم کرنے کا اغلان کیا. پاک فوج اور خیر پختون خوا پولیس کی مدد سے پھر ان جوانوں کی جدید بنیادوں پر تربیتی ٹریننگ کا آغاز کردیا گیا.

پشاور کی سنگم پر واقع ضلع خیبر جہاں پر دہشت گردی کی اس لہر میں پولیس بشمول عوام نے بڑی قربانیاں اور جانوں کے نذرانے پیش کئے ہیں اور یہ تسلسل 1965 پاک بھارت جنگ سے جاری ہے.

ضلع خیبر پاک افغان سرحد کے ساتھ ہونے کی وجہ سے دہشت گردی میں اضافہ متاثر ہوا ہے.

ضلع خیبر میں سال 2012 سے اب تک 106 پولیس اہلکاروں نے ملک کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔

فاٹا انضمام سے پہلے شہداء کو شہادت کا درجہ تو مل چکا ہے لیکن صوبے کے باقی پولیس اہلکاروں کی طرح شہداء پیکج یا مراعات ابھی تک نہیں ملی ہیں۔

خیبر پولیس شہداء کے ورثاء کے مطابق صوبائی حکومت کی بار بار یقین دہانی کے باوجود انکے شہداء کے ساتھ امتیازی سلوک جاری ہے.

شہداء کمیٹی کے چیئرمین ملک پرویز آفریدی نے حکومت سے پروز مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ "کیا ہم سابقہ فاٹا والے پاکستانی نہیں ؟ اگر ہیں تم پھر ہمارے شہداء کو پاکستانی تسلیم کرکے ملک کے دیگر پولیس شہداء کی طرح شہید پیکج اور مراعات دی جائے.”

متعلقہ تحاریر