پی ٹی آئی کارکن پولیس تشدد سے ہلاک نہیں ہوا، محسن نقوی

آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کا کہنا ہے کہ پولیس کی تحقیقاتی ٹیم نے علی بلال کی ہلاکت کے حوالے سے تمام شواہد جمع کرلیے ہیں۔

نگراں وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کا کہنا ہے کہ کسی شخص کا قتل کوئی چھوٹی چیز نہیں ہے ، پولیس کو کسی قسم کی کوئی ہدایت نہیں تھی کہ وہ بندوں پر تشدد کرے ، ہمارے پاس اطلاعات ہیں بندہ (علی بلال) تشدد سے نہیں مرا ، جبکہ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے کہا ہے کہ مجھ سے علی بلال کے والد نے اپیل کہ میرے بیٹے کےقتل کی مکمل تحقیقات کی جائیں۔

لاہور میں نگراں وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی اور آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آئی جی پنجاب کا کہنا تھا مجھے مقتول علی بلال کے والد نے اپیل کی ہے کہ میرے بیٹے کے قتل کی مکمل تحقیقات کی جائیں۔ مگر ہم نے یہ فرض اس وقت ہی شروع کردیا تھا جب ہمیں علی بلال کی موت کا پتا چلا تھا۔ علی بلال کی لاش کو 6 بجکر 52 منٹ پر ایک کالے رنگ کی گاڑی نے سروس اسپتال چھوڑا۔ ہمارے پاس فوری طور پر اطلاع پہنچی اور ہم نے فوری تحقیقات کا آغاز کردیا، فیصلہ یہ کیا گیا کہ اس میں سے کوئی بھی انفارمیشن اس وقت تک میڈیا سے شیئر نہیں کی جائے گی جب تک تمام ثبوت مل نہیں جاتے۔ ہم تمام ٹیکنیکل چیزیں سامنے لے آئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نے حج پالیسی 2023 کا اعلان کردیا

لیگی رہنماؤں پر مقدمات بنانے والے ترجمان نیب نوازش علی کوسی ڈی اے میں ڈائریکٹر لگادیا

آئی جی پنجاب کا کہنا تھا ہم نے آٹھی ٹی آر اوز کے ساتھ تحقیقات کا آغاز کیا ، ہم نے فیصلہ کیا اگر یہ شخص (علی بلال) پولیس تشدد سے ہلاک ہوا یا اس کے بارے میں کوئی ایسی چیز سامنے آئی جس میں پولیس کی زیادتی ثابت ہو ، تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائےگی۔

ڈاکٹر عثمان انور کا کہنا تھا کہ اللہ کے مہربانی سے جس ٹیم نے تحقیقات کا کام شروع کیا اس تمام ٹیکنیکل وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے گاڑی کو بیک ٹریپ کیا۔ 31 کیمروں  کی مدد سے گاڑی کی لوکیشن  کو ٹریس کیا ، یہ گاڑی جی بی سیکورٹیز کے بیس منٹ سے برآمد کی گئی ۔ ہمارے پاس تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں جو میڈیا سے شیئر کی جائیں گی۔ جس گاڑی سے علی بلال کی لاش برآمد ہوئی اس گاڑی میں اس کا خون موجود ہے۔ جس کا فرانزک کردیا گیا ہے ، سی ایم ایچ برج پر یہ گاڑی 6 بجکر 24 منٹ پر برج سے ٹکراتی ہے ، گاڑی میں موجود افراد کوئی جرائم پیشہ افراد نہیں تھے ، ان کی کوئی ایسی انٹینشن نہیں تھی علی بلال کو مارنے کی۔ مگر سوشل میڈیا پر پولیس کے خلاف ایک طوفان بدتمیزی کیا جارہا ہے کہ علی بلال کے قتل میں پولیس ملوث ہے۔

آئی جی پنجاب کا کہنا تھا میرا وعدہ ہے کہ ہم تمام تفتیشی حقائق علی بلال کے والد کے ساتھ شیئر کریں گے۔ گاڑی میں موجود لوگوں نے علی بلال کی جان بچانے کی کوشش کی ، وہ کوئی کریمنل نہیں ہیں ، وہ لوگ 6 بجکر 31 منٹ پر سی ایم ایچ کے سامنے لے کر جاتے ہیں ، مگر بدقسمتی سے وہ گیٹ سیکورٹی وجوہات کی بنا پر بند تھا ، یہ گاڑی 6 بجکر 50 منٹ پر بس اسٹینڈ سے گزرتےہوئے 6 بجکر 52 منٹ پر سروسز اسپتال پہنچ جاتی ہے ، یہاں انہوں زخمی علی بلال کو ایدھی ایمبولینس کے حوالے کرتے ہیں ، جس کے ڈرائیور کا نام جہاہزیب ہے ، اس کے ساتھ عمر فرید بیٹھا تھا۔ یہ تمام لوگ عدالت میں پیش کیے جائیں گے ، ان کی گرفتاری ڈال دی گئی ہے۔ اس گاڑی کے مالک کا نام راجہ شکیل ہے ، ان کی علی بلال کو قتل کرنے کی کوئی انٹینشن نہیں تھی ،  راجہ شکیل پی ٹی آئی سینٹر پنجاب کے ایک اہم رکن ہیں ، اس کے بعد یہ طے کیا جاتا ہے کہ اس ڈیٹھ کو پولیس کے خلاف استعمال کیا جائے ، اس کا مس یوز کیا جائے ، پولیس اور سسٹم کو گالی دی جائے۔

ڈاکٹر عثمان انور کا کہنا تھا یہ ساری سازش ناکام ہو گئی کیونکہ ہماری ٹیکنیکل ٹیم نے جب اس پر کام کیا تو ہمیں تمام شواہد مل گئے ، اور تمام ٹیلی فونز کا ڈیٹا بھی مل گیا کہ کس سیاسی لیڈر سے کس وقت بات ہوئی اور کس نے کیا کہا۔ آڈیوز میڈیا کے ساتھ شیئر کردی جائیں گی۔ پولیس کو دھمکیاں دی گئیں ، کہا گیا کہ پولیس کے خلاف پرچے درج کرائے جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا جو جو ویڈیو سوشل میڈیا پر ڈالی جارہی ہے ہم اس ایک ایک ویڈیو کا جواب دیں گے۔ علی بلال کے والد کو انصاف دلایا جائے گا اصل فیصلہ اللہ کی عدالت میں ہوگا۔

اس موقع پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نگراں وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کا کہنا تھا کہ اس واقعے کے بعد تقریباً ساڑھے آٹھ بجے راجہ شکیل نے پی ٹی آئی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد سے گفتگو کی۔ راجہ شکیل واقعے سے متعلق ساری اطلاع ڈاکٹر یاسمین راشد کو دی۔ کہ اس طرح سے یہ ایکسیڈنٹ ہوا ہے اور وہ بندہ فوت ہو گیا ہے۔ یاسمین راشد نے راجہ شکیل کو 9 مارچ کو زمان پارک آنے کو کہا ، وہاں آپ کی دیگر رہنماؤں سے ملاقات کرائی جائے گی۔ راجہ شکیل ایک سے تین کے درمیان زمان پارک پہنچ گئے ، راجہ شکیل کے ڈرائیور کی داڑھی تھی مگر اس نے حلیہ تبدیل کرنے  کےلیے داڑھی صاف کروا دی۔ راجہ شکیل نے تسلیم کیا ہے کہ انہوں نے یاسمین راشد اور زبیر نیازی سے ٹیلی  فونک رابطہ کیا تھا ، ان کے لیڈر نے سب کو بتا کہ یہ قتل اس طرح سے ہوا ہے ، پھر یاسمین راشد اور باقی لیڈرز نے پریس کانفرنسز کیں۔ پھر علی بلال کے والد کو کہا جاتا ہے کہ آٌپ نےکھڑے رہنا ہے ہم آپ کو پیسے بھی دیں اور سپورٹ بھی کریں گے۔

نگراں وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کا کہنا تھا پی ٹی آئی کارکن تشدد سے ہلاک نہیں ہوا ، حادثے کا علم ہونے کے باوجود سب نے الزام تراشی کی ، لوگ سارا دن  سیاست کریں مگر جھوٹے الزامات نہ لگائیں ، ہماری بھی فیملیز ہیں ہمارے بھی بچے ہیں ، کیا کسی پر قتل کا الزام لگانا اتنا آسان ہے۔

متعلقہ تحاریر