لاہور پولیس کو علی بلال کی موت کو حادثے قرار دینے کیلیے تاحال فوٹیج کی تلاش

تقریباً 50 سی سی ٹی وی فوٹیجز میں سے علی بلال کے روڈ ایکسیڈنٹ سے متعلق ایک فوٹیج ابھی تک لاپتہ ہے، ایم ڈی سیف سٹی پروجیکٹ کامران خان

لاہور پولیس ایک ہفتے بعد بھی کوئی ایسی فوٹیج تلاش نہیں کرسکی ہے جس کی بنیاد پر پی ٹی آئی کارکن علی بلال کی موت کا سبب ٹریفک حادثے کو قرار دیا جاسکے۔

8 مارچ کو پاکستان تحریک انصاف کے جلسے میں علی بلال المعروف زلے شاہ کی پراسرار موت کے بعد پوسٹ مارٹم رپورٹ میں  ان کے جسم پر  تشدد کے 26 نشانات کی تصدیق ہونے کےبعد  لاہور میں شدید احتجاج ہوا تھا  اور تحریک انصاف نے الزام عائد کیا تھا کہ انہیں پولیس  حراست میں بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیاگیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

علی بلال عرف ظلِ شاہ کا قتل: پی ٹی آئی کا عدالت جانے کا اعلان

علی بلال کی موت: حادثہ یا قتل ، حکومت کنفیوژن کا شکار

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی جانب سے واقعے پر شدید غم و غصے کے اظہار کے بعد پی ٹی آئی اور ن لیگ میں محاذ آرائی کی فضا قائم ہوگئی تھی۔

ہر گزرتے دن کے ساتھ کشیدگی میں اضافے کے بعد آئی جی پنجاب پولیس نے ڈی آئی جی صادق علی ڈوگر کی سربراہی میں ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی تشکیل دی تھی  جس نے بعد میں اعلان کیا کہ علی بلال کی ٹریفک حادثے میں ہوئی۔

نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی اور انسپکٹر جنرل پولیس ڈاکٹر عثمان انور نے 11 مارچ کو ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں انکوائری کمیٹی کے نتائج کو شیئر کرتے ہوئے اعلان کیا کہ پی ٹی آئی کارکن کی موت ٹریفک حادثے میں ہوئی ہے۔

پولیس کے اعلیٰ افسران نے پہلی بار باضابطہ طور پر اس بات کی تصدیق کی کہ وہ ٹریفک حادثے سے متعلق انتہائی ضروری سی سی ٹی وی فوٹیج کا پتہ نہیں لگا سکے۔

پنجاب سیف سٹی اتھارٹی (پی ایس سی اے) کے منیجنگ ڈائریکٹر کامران خان نے بدھ کو روزنامہ ڈان بتایا کہ پولیس کے تفتیش کاروں نے میاں میر اوور ہیڈ برج کے گردونواح میں نصب اتھارٹی اور لاہور کنٹونمنٹ دونوں کے لگ بھگ 50 سی سی ٹی وی کیمروں کا جائزہ لیا جہاں سے پی ٹی آئی کارکن کو 8 مارچ کو کالے رنگ کی کار کے ذریعے اٹھایا گیا تھا۔ ۔

کامران خان نے روزنانہ ڈان کو تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ”تقریباً 50 سی سی ٹی وی فوٹیجز میں سے علی بلال کے روڈ ایکسیڈنٹ سے متعلق ایک فوٹیج ابھی تک لاپتہ ہے“۔

پولیس کی تحقیقات کے نتائج کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حادثہ میاں میر اوور ہیڈ برج کے وسط میں پیش آیا اور وہ مخصوص علاقہ پی ایس سی اے اور لاہور کنٹونمنٹ دونوں کے سی سی ٹی وی کیمروں کی کوریج سے باہر تھا۔

انہوں نے کہا کہ پل کے دونوں سروں پر کیمرے نصب کیے گئے تھے اور پولیس نے فوٹیج حاصل کیں جس میں ایک کالے رنگ کی کار کو دیکھا گیا جو علی بلال کواسپتال لے جانے سے پہلے لے جا رہی تھی۔

انہوں نے کہا کہ کار پر سوار ملزمان نے پہلے پی ٹی آئی کے شدید زخمی کارکن کو سی ایم ایچ لے جانے کی کوشش کی اور جب پتہ چلا کہ جس گیٹ سے انہوں نے سی ایم ایچ میں داخل ہونے کی کوشش کی ہے وہ دراصل اخراج کا ہے تو وہ اسی پل کے ذریعے سروسز اسپتال روانہ ہوگئے ۔

ایم ڈی پی ایس سی اے کا کہنا تھا کہ پل کے دونوں جانب سی سی ٹی وی کیمروں نے سیاہ کار کو ٹریک کیا ہے۔کامران خان نے کہاکہ”ہم نےپنجاب سیف سٹی اتھارٹی کے ہیڈ آفس میں موجود تمام سی سی ٹی وی فوٹیجز کا گہرائی سے تجزیہ کیا جس میں فورٹریس اسٹیڈیم کے قریب پولیس کی جیل وین سے نکلنے والے علی بلال سمیت پی ٹی آئی کے کچھ کارکنوں کا سراغ لگایا گیا“۔

فوٹیجز میں علی بلال کو میاں میر اوور ہیڈ برج کی طرف سڑک پر پیدل چلتے ہوئے دیکھا گیا جبکہ دیگر لوگ ممکنہ طور پر جائے وقوعہ سے غائب ہونے کے لیے آٹورکشہ کرایہ پر لے رہے تھے۔

ایم ڈی نے بتایا کہ انہیں اسپتال منتقل کرنے والے مشتبہ افراد نے دعویٰ کیا کہ زلے شاہ ٹریفک  حادثے میں اس وقت شدید زخمی ہوا جب وہ میاں میر پل کے وسط پر گاڑی چلا رہے تھے۔انہوں نے کہا کہ پولیس کے سینئر ماہرین کی ایک ٹیم نے بعد میں مشتبہ کار سواروں کی معلومات کی تصدیق کے لیے اسی مقام کا معائنہ کیا۔معائنے کے دوران پولیس کو پتہ چلا کہ پل کے درمیان میں ایک موڑ ہے اور یہ سی سی ٹی وی کیمروں کے ریڈار پر نہیں ہے۔

تاہم کچھ دیگر   ماہرین کا کہنا ہے کہ   پولیس کے نتائج نے عوام کو مزید الجھن میں ڈال دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ مذکورہ فوٹیج ہی وہ واحد ناقابل تردید ثبوت تھا جو پولیس کو پی ٹی آئی قیادت کے ان الزامات کی نفی کرنے کے لیے درکار تھا کہ زلے شاہ کو  مبینہ طور پر حراست میں قتل کیا گیا تھا۔ .

پولیس  عینی شاہدین کے بیانات یا کوئی اور اہم اشارہ حاصل نہیں کر سکی جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ اس کی موت حادثے میں ہوئی ہے۔پی ایس سی اے کے نتائج کا حوالہ دیتے ہوئےانہوں نے کہا کہ چونکہ ٹریفک حادثے کی سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کرنے کا امکان بہت کم ہے، اس لیے پولیس کو عدالت میں یہ ثابت کرنے کے لیے سخت وقت کا سامنا کرنا پڑے گا کہ پی ٹی آئی رہنماؤں کے الزامات بے بنیاد ہیں۔نام ظاہر نہ کرنے والے ماہرین میں سے ایک نے کہاکہ”  میرے خیال میں پولیس  کی تحقیقات اندھیرے میں جا رہی ہے “۔

متعلقہ تحاریر