لاہور ہائیکورٹ کا آئی جی پنجاب کو عمران ریاض کو پیر تک پیش کرنے کا حکم

جسٹس امیر بھٹی کا کہنا ہے کہ کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کا وقت ہے، آئی جی پی پیر تک جامع جواب جمع کرانے کے ذمہ دار ہوں گے۔

لاہور ہائی کورٹ نے انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کو ‘لاپتہ’ اینکر پرسن عمران ریاض خان کو پیر تک پیش کرنے کا الٹی میٹم دے دیا۔

اینکر پرسن عمران ریاض خان کے کیس کی سماعت لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس محمد امیر بھٹی نے کی ، جنہوں نے دوران سماعت ریمارکس دیئے کہ اب وقت آگیا ہے کہ کارروائی کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔

کارروائی کے دوران آئی جی پی اور سیالکوٹ جیل کے سپرنٹنڈنٹ جیل کے باہر سیکیورٹی کے فقدان کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹھہراتے نظر آئے۔ عدالت نے ویڈیو کلپ چلانے کا حکم دیا تو چیف جسٹس بھٹی نے نوٹ کیا کہ جب اینکر پرسن جیل سے باہر آئے تو باہر کوئی سیکورٹی موجود نہیں تھی۔

یہ بھی پڑھیے 

لاہور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کے 123 کارکنوں کی نظر بندی معطل کر دی

فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والی خواتین کو لازمی گرفتار کیا جائے، محسن نقوی

جیل سپرنٹنڈنٹ کا کہنا تھا کہ سیالکوٹ جیل کے باہر کا علاقہ پنجاب پولیس کے دائرہ اختیار میں آتا ہے، جب کہ اندر کی ذمہ داری ان کی ٹیم تھی۔

دوران سماعت آئی جی پی ڈاکٹر عثمان انور سے سوال کیا گیا تو انہوں نے الٹا سپرنٹنڈنٹ جیل سے پوچھا کہ کیا جیل اتھارٹی کوئی ایسا خط پیش کر سکتی ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ پنجاب پولیس سے سیکورٹی کی درخواست کی گئی تھی۔ آئی جی پی نے دلیل دی کہ پولیس اہلکار عمومی طور پر جیل حکام کی درخواست پر تعینات ہوتے ہیں۔

پولیس کی پیشرفت کے بارے میں ایک سوال پر آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے عدالت کو تمام تفصیلات سے آگاہ کیا کہ پولیس کیا کررہی اور آگے کیا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

آئی جی پی کے دلائل ایسے ہی تھے جو انہوں نے 19 مئی کو ہونے والی کارروائی کے دوران دیے تھے۔

19 مئی کے سماعت کے دوران آئی جی پنجاب نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ پولیس نے جیو فینسنگ کا عمل شروع کردیا ہے ، ٹیلی کام کمپنیوں سے ڈیٹا اکٹھا کیا جارہا ہے ، سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کرلی گئی ہیں ، شناخت کے عمل کے لیے نادرا سے رابطہ کیا ہے۔

آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ عمران ریاض کی بازیابی کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) ، انٹر سروسز انٹیلی جنس (ISI) اور انٹیلی جنس بیورو (IB) سے مدد طلب کی گئی ہے۔ انہوں نے عدالت کو یقین دلایا کہ پولیس عمران ریاض کا سراغ لگانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گی۔

سماعت کے دوران عمران ریاض خان کے وکیل ایڈووکیٹ اظہر صدیق نے عدالت کو بتایا کہ ان کے پاس اینکر پرسن کے گھر پر پولیس کے پہلے چھاپے سے متعلق شواہد موجود ہیں۔ انہوں نے آئی جی پنجاب سے سوال کیا کہ عمران ریاض خان کے گھر پر چھاپہ کیوں مارا گیا تھا ؟ جب کہ پولیس کے مطابق ان کے خلاف کوئی ایف آئی آر نہیں ہے۔

ایڈووکیٹ اظہر صدیق نے عدالت کو بتایا کہ پولیس کی تمام مشقیں ان کی طرف سے ناقص ثابت ہوئیں۔

چیف جسٹس بھٹی نے بالآخر آئی جی پنجاب کو ہدایت کی کہ وہ جامع جواب کے ساتھ آئیں اور پیر تک عمران ریاض کو پیش کریں۔

دوران سماعت آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ امیر بھٹی کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے۔ وہ متعدد سوالات کے خاطر خواہ جوابات نہیں دے سکے۔

عدالتی کارروائی کے دوران آئی جی پی پنجاب سے بار بار پوچھا گیا کہ پولیس کا نظام اینکر پرسن کا پتہ لگانے میں کیوں ناکام ہے؟ اس کے جواب میں انہوں نے اس خیال کو مسترد کر دیا کہ اینکر پرسن کو اغوا کیا گیا ہے۔ اغواء کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ یوں لگتا ہے عمران ریاض نے خود کو جان بوجھ کر چھپایا ہوا جس کی وجہ سے پولیس کو انہیں تلاش کرنے میں مشکل پیش آرہی ہے۔

متعلقہ تحاریر