شہری کی رہائی کے بعد دوبارہ گرفتاری: لاہور ہائی کورٹ نے آئی جی پنجاب سے وضاحت طلب کرلی

جسٹس انوارالحق پنوں کا کہنا ہے کہ عدالت ایک شہری کو رہا کرتی ہے تو پولیس اس کو دوسرے کیس میں گرفتار کرلیتی ہے۔

لاہور ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ عدالت ایک کیس میں شہری کو رہا کرتی ہے تو پولیس دوسرے کیس میں گرفتار کرلیتی ہے۔

تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس انوار الحق پنوں نے یہ ریمارکس بیٹے کی بازیابی کےلیے خاتون کی درخواست پر دیئے ہیں۔ عدالت کا کہنا تھا قانون کو فالو کیوں نہیں کیا جارہا۔

یہ بھی پڑھیے

لاہور ہائیکورٹ نے 9 مئی کے واقعات کی تحقیقات سے متعلق وفاق و پنجاب سے جواب طلب کرلیا

اینٹی کرپشن عدالت نے پرویز الٰہی کی عبوری ضمانت کی درخواست مسترد کردی

لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس انوارالحق کی عدالت نے بیٹے کی بازیابی نہ ہونے پر خاتون نے درخواست دائر کی تھی۔

جسٹس انوارالحق پنوں نے آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کو عدالت میں طلب کیا اور  تفصیلات طلب کیں۔

جسٹس انوارالحق پنوں کا کہنا تھا کہ مجھے آپ کو عدالت میں  بلانے کا کوئی شوق نہیں ہے ، آپ ملک کے سب سے بڑے صوبے کی پولیس کے سربراہ ہیں ، مگر کیا کریں مسئلہ ہی کچھ ایسا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کے جج کا کہنا تھا ہم توقع کرتے ہیں کہ پولیس عدالتوں کی درست معاونت کرے گی۔

دوران سماعت جسٹس انوارالحق پنوں کا کہنا تھا کہ ہم ایک سے شہری کی  رہائی کا حکم دیتے ہیں تو پولیس دوسرے کیس میں گرفتار کرلیتی ہے۔

اس پر آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ 9 مئی کو جو واقعات ہوئے تھے ان میں جناح ہاؤس سمیت دیگر املاک کو نذرآتش کیا گیا۔ پولیس جیو فینسنگ کے ذریعے گرفتاریاں  کررہی ہے۔

ڈاکٹر عثمان انور کا کہنا تھا کہ طالبان کی طرز پر جناح ہاؤس لاہور ، گوجرانوالہ اور دیگر شہروں واقعات ہوئے ، واقعات میں ملوث افراد کو جیو فینسنگ کے ذریعے گرفتار کیا جارہا ہے ، تاہم جو بے گناہ افراد ہوں گے انہیں رہا کردیا جائے گا۔

آئی جی پنجاب کا مزید کہنا تھا کہ دو واٹس ایپ گروپس کا بھی پتا چلا ہے ، اس کو بھی چیک کرکے کارروائی کی جارہی ہے۔ خواتین پولیس اہلکاروں اور افسران پر تشدد کرنے افراد کو پکڑا جارہا ہے۔ پکڑے گئے افراد کے خلاف  جے آئی ٹیز تشکیل دے کر تحقیقات کی جارہی ہیں۔

جس پر جسٹس انوارالحق پنوں کا کہنا تھا کہ ہم سب سرکاری ملازم ہیں ، ہم تنخواہ لیتے ہیں ، عوام نے ہمیں ملازم رکھا ہوا ہے ، ہمیں حکمرانی نہیں بلکہ خدمت کے لیے رکھا گیا ہے۔

جسٹس انوارالحق پنوں کا کہنا تھا کسی ایک کو ترجیح نہ دیں ، ہم نے بھی ریٹائر ہونا ہے اور آپ نے بھی۔ ہمیں ریٹائرمنٹ کے بعد اسی معاشرے میں  رہنا ہے۔ ہم لوگوں کو جیلوں میں  مرنے کے لیے نہیں چھوڑ سکتے۔ اور نہ ہی عدالت آنکھیں بند کرکے خاموش ہوکر بیٹھ سکتی ہے۔

عدالت نے آئی جی  پنجاب سے تمام دائر مقدمات کی تفصیلات بھی طلب کرلیں اور کہا کہ جیو فینسنگ کے طریقہ کار بارے عدالت میں تحریری جواب جمع کرایا جائے۔

خاتون کلثوم بی بی نے اپنے بیٹے شعیب اختر کی رہائی کے لیے درخواست دائر کی تھی۔ درخواست میں شعیب اختر کی دوبارہ  گرفتاری کو چیلنج کیا گیا تھا۔ جس پر عدالت نے آئی جی پنجاب سے تحریری وضاحت طلب کرلی ہے۔

متعلقہ تحاریر