نگراں وزیرِ اطلاعات عامر میر کو سیاسی پریس کانفرنس مہنگی پڑگئی

عامر میر نے سیاسی وابستگیوں کے حامل ججوں کی غیر جانبداری پر تشویش کا اظہار کیا۔ عدالت کو پرویز الٰہی کی بریت کے فیصلے پر نظرثانی کرنی چاہیے۔

پنجاب کے عبوری وزیر اطلاعات عامر نے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے صدر چوہدری پرویز الٰہی کے خلاف بدعنوانی کا مقدمہ خارج کرنے کے عدالتی فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ جوڈیشل مجسٹریٹ کے فیصلے سے ان کی سیاسی جانبداری عیاں ہو گئی۔ تاہم قانونی اور سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ عامر میر صاحب کو اپنی اصلاح کرنی چاہیے کیونکہ نگراں حکومت کا کام آئین کے مطابق انتخابات کرنا ہوتا ہے ناکہ عدالتی فیصلوں پر تنقید کرنا۔

عامر میر کا کہنا تھا کہ جوڈیشل مجسٹریٹ نے چوہدری پرویز الٰہی کو میگا کرپشن میں بری کرتے ہوئے اہم حقائق کو نظرانداز کیا۔ انہوں نے ایف آئی اے اور انسداد بدعنوانی جیسے اداروں میں سیاسی وابستگی رکھنے والے ججز کی غیرجانبداری پر تشویش کا اظہار کیا۔

یہ بھی پڑھیے 

چوہدری پرویز الہیٰ کی عدالت پیشی سے قبل ان کے ترجمان اقبال چوہدری گرفتار

لاہور میں پی ایم ایس امتحانات کے پیش نظر پانچ مقامات پر دفعہ 144 نافذ کردی گئی

عامر میر کا کہنا تھا کہ "جج کا سوشل میڈیا پیج ان کی سیاسی وابستگی کا اہم ترین ثبوت ہے ، حکومت اس معاملے کا سنجیدگی سے جائزہ لے رہی ہے، انصاف کی کرسی پر بیٹھنے والوں کو سیاسی وابستگی کی بنیاد پر فیصلے نہیں کرنے چاہئیں۔ کرپٹ عناصر کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔

نگراں وزیر اطلاعات پنجاب کا کہنا تھا کہ یہی جج اس سے پہلے بھی 5 مقدمات میں پرویز الہیٰ اور محمد خان بھٹی کو ریلیف دے چکے ہیں۔ چوہدری پرویز الہیٰ کے حوالے سے جج کا فیصلہ عدالیہ کے معیار پر سوال ہے۔

نگراں وزیر اطلاعات عامر میر کی پریس کانفرنس پر تنقید کرتے سعید علی نامی ٹوئٹر صارف نے لکھا ہےکہ ” آپ کا فریضہ صرف اور صرف نوے دن میں انتخابات تھا ڈفر انسان۔”

اکبر ملک  نامی ٹوئٹر صارف نے لکھا ہے کہ ” آپکا کام الیکشن کروانا تھا ججز پر تنقید کی اجازت نہیں ہے ہاں آپ استعفی دیں پھر جتنی مرضی تنقید کریں۔ پہلے اپنی آئینی ذمہ داری پوری کریں پھر دوسروں پر کیچڑ اچھالیں۔ اپنے گریبان میں جھانکیں روز آپ آئین پاکستان کی دھجیاں اڑاتے ہیں پھر کنٹرولڈ میڈیا پر بیٹھ کر پارسا بنتے ہیں۔”

ابرار یونس خٹک نامی ٹوئٹر صارف نے لکھا ہے کہ ” اب دیکھتے ہیں کہ ایک نگراں وزیر کے خلاف کیسے توہین عدالت لگاتے ہیں یا نہیں۔”

متعلقہ تحاریر