آڈیو یا ویڈیو ملزم کے خلاف بطور ثبوت استعمال نہیں کی جاسکتی، لاہور ہائیکورٹ
لاہور ہائی کورٹ نےاپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ کسی آڈیو یا ویڈیو کوملزم کے خلاف کارروائی کے لیے ثبوت کے طور پر نہیں لیا جاسکتا ہے، آڈیو اور ویڈیوز کو ریکارڈ اور اپ لوڈ کرکے رازداری کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ایک کثیر الجہتی معاملہ ہے
لاہور ہائی کورٹ (ایل ایچ سی) نےاپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ کسی آڈیو یا ویڈیو کوملزم کے خلاف کارروائی کے لیے ثبوت کے طور پر نہیں لیا جاسکتا ہے ۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد جمیل خان نے نجی اسکول میں طالبہ پر جسمانی تشدد کے واقعے کی ویڈیو کلپ نشر کرنے کے خلاف درخواست کی سماعت کی ۔
یہ بھی پڑھیے
پی ٹی آئی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد کو کور کمانڈر ہاؤس حملہ کیس میں بری کردیا گیا
لاہور ہائی کورٹ نےاپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ کسی آڈیو یا ویڈیو کوملزم کے خلاف کارروائی کے لیے ثبوت کے طور پر نہیں لیا جا سکتا ہے ۔
ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد جمیل خان نے کہا کہ جس شخص کے خلاف اس طرح کی آڈیو اور ویڈیو لیک ہوئی وہ متاثرہ شخص ہے ملزم نہیں ہے ۔
جسٹس شاہد جمیل خان نے کہا کہ آڈیو اور ویڈیوز کو ریکارڈ اور اپ لوڈ کرکے رازداری کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ایک کثیر الجہتی معاملہ ہے۔
انہوں نے مشاہدہ کیا کہ کیا کسی بھی ایجنسی، وفاقی یا صوبائی کو آڈیو یا ویڈیوز کی ریکارڈنگ کے لیے رازداری میں دخل اندازی کی اجازت دی جا سکتی ہے۔
لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ کسی بھی آڈیو یا ویڈیو کو ملزم کے خلاف کارروائی کے لیے ثبوت کے طور پر نہیں لیا جا سکتا ہے ۔
یہ بھی پڑھیے
عمران خان فوج سے سیاسی جنگ ہارگئے؛ اکنامسٹ کا دعویٰ اور دفتر خارجہ کا رد عمل
جسٹس شاہد جمیل خان نے کہا کہ آڈیو اور ویڈیوز کو ریکارڈ اور اپ لوڈ کرکے رازداری کے بنیادی حق کی خلاف ورزی، ایک کثیر الجہتی تجویز ہے۔
یاد رہے کہ عمائمہ نے نابالغوں کے چہرے چھپائے بغیر نیوز چینلز کے ذریعہ واقعہ کی ویڈیو کلپ نشر کرنے کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔
عدالت نے پہلے ہی پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کو تمام ٹیلی ویژن چینلز کو ویڈیو نشر کرنے سے روکنے کا حکم دیا تھا۔