لاہور کی مقامی عدالت سے ڈاکٹر یاسمین راشد کی بریت، پنجاب پولیس کی قلابازیاں جاری

رہنما تحریک انصاف کی بریت کو آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان اعوان نے لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

لاہور کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی  عدالت کے جج نے پی ٹی آئی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد کو کور کمانڈر حملہ کیس میں عدم ثبوتوں کی بنا کر رہا کرنے کا حکم دے دیا، آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان اعوان کا کہنا ہے کہ وہ یاسمین راشد کی بریت کے خلاف اپیل دائر کریں گے ، پولیس کے پاس ان کے خلاف مکمل ثبوت موجود ہیں۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی جی پنجاب صاحب ، ڈاکٹر یاسمین راشد کی بریت کے بعد فرما رہے کہ پولیس کے پاس ان کے خلاف سارے ثبوت ہیں اگر ثبوت تھے تو عدالت میں کیوں نہیں لے کر گئے ، تاکہ ان کی بریت ہی ممکن ہوسکتی۔

ہفتے کے روز ڈاکٹر یاسمین راشد کو جسمانی ریمانڈ کے لیے پولیس نے انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کی جج عبہر گل خان کے روبرو پیش کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے 

چوہدری شافع  کی چوہدری پرویز الہیٰ کو دوبارہ قاف لیگ میں شمولیت کی دعوت

این سی اے سے ملک ریاض کیساتھ کیا گیا معاہدہ منظر عام پر لانے کا مطالبہ

دوران سماعت پی ٹی آئی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ میری موکلہ کے خلاف ملزمان کے بیانات کی روشنی میں مقدمے میں نام درج کیا گیا تھا۔

اس پر پنجاب پولیس نے خصوصی عدالت کے جج سے استدعا کی انہیں یاسمین راشد کے پاس سے موباٸل برآمد کرنا ہے اور ان کا فوٹوگرامیٹک ٹیسٹ بھی کروانا ہے، لہٰذا یاسمین راشد کا جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔

جج عبہر گل خان نے پنجاب پولیس کی استدعا نامنظور کرتے ہوئے ڈاکٹر یاسمین راشد کو جناح ہاؤس حملہ کیس سے ڈسچارج کر دیا۔

آئی جی پنجاب کی پریس کانفرنس کا مختصر احوال

گذشتہ روز ڈاکٹر یاسمین راشد کی بریت کے خلاف پریس کانفرنس کرتے ہوئے آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور اعوان کا کہنا تھا کہ وہ یاسمین راشد کی بریت کو ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے۔

آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ 8 اور 9 مئی کو جناح ہاؤس پر حملے کے لیے کس رہنما نے کتنی کالز کیں سب کا ڈیٹا اکٹھا کرلیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یاسمین راشد ، حماد اظہر ، محمود الرشید ، اعجاز چوہدری  اور اسلم اقبال کے موبائل فونز سے 215 کالز کی گئیں۔ یاسمین راشد نے 41 کالز کیں۔

ڈاکٹر عثمان انور اعوان کا کہنا تھا کہ پولیس کو فرانزک شواہد پیش نہیں کرنی  دی گئیں ، الٹا ڈاکٹر یاسمین راشد کو بری کردیا گیا۔

چیئرمین تحریک انصاف کا ردعمل

تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد کی بریت پر ردعمل دیتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیغام جاری کرتے ہوئے کہا کہ ” اب جبکہ ڈاکٹر یاسمین راشد کو کور کمانڈر لاہور کی رہائشگاہ میں جلاؤ گھیراؤ کے معاملے میں بالکل معصوم (بےگناہ) قرار دے دیا گیا ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہےکہ مرکزی پنجاب کی صدر کے طور پر (ڈاکٹر یاسمین راشد) اور پاکستان تحریک انصاف کا بطور جماعت اس جلاؤ گھیراؤ میں قطعاً کوئی کردار نہیں۔”

چیئرمین تحریک انصاف نے مزید لکھا ہے کہ "تحریک انصاف کیخلاف سارا کریک ڈاؤن اسی جواز کی آڑ میں کیا گیا کہ تحریک نے پرتشدد کارروائیوں کی منصوبہ بندی کی۔ اس بیانیے کی تو اب واقعتاً دھجیاں اُڑ چکی ہیں۔”

عمران خان کے بیان پر پنجاب پولیس کا ردعمل

دوسری جانب پنجاب فرانزک لیبارٹری کی آڈیو اور ویڈیو رپورٹ بھی سامنے آگئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق حناح ہاؤس کے حملے کے وقت یاسمین راشد اسپاٹ پر موجود تھیں۔

پنجاب پولیس کا کہنا ہے کہ "ڈاکٹر یاسمین راشد سمیت 9 مئی کے واقعے کے تمام سازشی، منصوبہ ساز اور مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ جناح ہاؤس کیس کی تفتیش سائنسی بنیادوں پر ہو رہی ہے۔”

پنجاب پولیس نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ "عدالتی حکم کو چیلنج کیا جائے گا، کیونکہ پولیس کو کیس میں فرانزک ثبوت پیش کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ ہائی کورٹ کے حکم کے بعد عدالتی حکم کو حتمی شکل دی جائے گی۔  پولیس کیس کی تفتیش اور عوام کے سامنے سچ لانے کا حق محفوظ رکھتی ہے۔”

تبصرہ

ڈاکٹر یاسمین راشد کی بریت اور آئی جی پنجاب کی پریس کانفرنس پر تبصرہ کرتے ہوئے قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ جب پنجاب پولیس نے تحریک انصاف کی رہنما کو گرفتار کیا تو سارے ثبوت بھی اکٹھے کرتے کرتے ، کیونکہ ہر گرفتار ملزم کو عدالت کے سامنے پیش تو ہر حالت میں کرنا ہوتا ہے۔ مگر موجودہ  صورتحال میں ایسا لگتا ہے کہ پولیس بغیر ثبوتوں کے عدالت میں پہنچ گئی تھی ، اور پھر ہوا جس کا ہونا طے تھا ، یعنی عدالت نے عدم ثبوتوں کی بنا پر ڈاکٹر یاسمین راشد کو رہا کرنے کا حکم  دے دیا۔

قانونی ماہرین کا کہنا تھا کہ بعد میں  آئی جی پنجاب پریس کانفرنس بھی کررہے ہیں ، پھر فرانزک رپورٹ بھی آجاتی ہے ، بھائی پہلے کیا کررہے تھے۔ پولیس کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اوپر کے حکم پر بندے کو گرفتار تو کرلیتے ہیں مگر ثبوت اکٹھے نہیں کرتے اور پھر بندہ آسانی  سے عدالت سے بریت حاصل کرلیتا ہے، اور اس کیس میں بھی  یہی ہوا ہے۔

متعلقہ تحاریر