منی لانڈرنگ کیس ، وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پر آج بھی فرد جرم عائد نہ ہوسکی
خصوصی عدالت کے جج نے کہا کہ آج پھر کارروائی آگے نہیں بڑھ سکے گی، شیڈول کی تاریخ اوپر نیچے کر دیتے ہیں آج معمول کی تاریخ نہیں تھی۔
منی لانڈرنگ کیس میں وزیراعظم شہباز شریف کی عدالت میں حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور ، وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز عدالت میں پیش ہو گئے۔ ایف آئی اے کی جانب سے وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ کے خلاف منی لانڈرنگ کیس کی پیروی کرنے کے انکار کے باوجود آج تاریخ مقرر کی گئی ، فرد جرم عائد ہونے سے ٹھیک تین روز قبل ایف آئی اے کی جانب سے لیگی رہنماؤں کے خلاف ٹرائلز نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ، جبکہ خصوصی عدالت نے وزیر اعظم کی جانب سے استثنیٰ کی درخواست منظور کرتے ہوئے سماعت 21 مئی تک ملتوی کردی۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے منی لانڈرنگ کیس میں آج کی سماعت میں پیش نہ ہونے کی درخواست دائر کی تھی ، عدالت کی جانب سے ان کی درخواست منظور کرلی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
حمزہ شہباز کی حلف برداری، لاہور ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کی درخواستوں پر اعتراض اٹھا دیئے
وزیراعلیٰ پنجاب نے شادیوں میں ون ڈش پارٹی کا حکم دے دیا
شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ ان کے مؤکل میڈیکل چیک اپ کے لیے بیرون ملک ہیں، انہیں کمر درد کا مسئلہ درپیش ہے، ہائی کورٹ نے پہلے بھی میڈیکل چیک اپ کے لیے شہباز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی تھی۔
خصوصی عدالت کے جج نے کہا کہ آج پھر کارروائی آگے نہیں بڑھ سکے گی، شیڈول کی تاریخ اوپر نیچے کر دیتے ہیں آج معمول کی تاریخ نہیں تھی۔
اس موقع پر ایف آئی اے کے وکیل فاروق باجوہ کا کہنا تھا کہ میڈیکل گراؤنڈ پر شہباز شریف کی حاضری معافی کی درخواست پر کوئی اعتراض نہیں ہے، لیکن مقدمے کی کارروائی کے لیے تمام ملزمان کا عدالت موجود ہونا ضروری ہوتا ہے۔
ایف آئی اے کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ میری آج عدالت میں پہلی پیشی ہے جس پر جج نے ریمارکس دیے کہ میری عدالت کا ریکارڈ ہے ایک دن میں چالان کی کاپی فراہم ہوتی ہے اسکے بعد فرد جرم عائد کی جاتی ہے۔
وزیر اعظم کے وکیل امجد پرویز نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ منی لانڈرنگ کیس میں جن کمپنیز کا ذکر کیا گیا وہ ساری ایس ای سی پی کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں، شہباز شریف ان کمپنیوں کے کبھی ڈائریکٹر یا شئیر ہولڈر نہیں رہے ان کے ذاتی اکاؤنٹ میں ایک بھی روپیہ موصول نہیں ہوا، سابق دور حکومت میں بغیر تفتیش کے یہ مقدمہ درج کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ جن گواہوں نے بیانات دیے ان میں سے کسی نے جرم کے ارتکاب کے حوالے سے نہیں کہا ہے جبکہ سابق وزیر داخلہ نے اپنے سامنے بیٹھ کر گواہوں کے بیانات لکھوائے، جب گواہان کے بیان ریکارڈ کیے گئے اس وقت شہباز شریف اور حمزہ شہباز جیل میں تھے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی آر میں کیش بوائے کا ذکر ہے، اس کو دیکھیں، جس پر شہباز شریف کے وکیل نے بتایا کہ ایف آئی آر میں 25 ارب روپے کی بات کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ الزام لگایا گیا ہے کہ مختلف اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ ہوئی ہے، اس دور حکومت جس میں وزیر داخلہ اس کیس کی فائل سامنے رکھ کر پریس کانفرنس کرتے تھے شہباز شریف کے خلاف ایسی کوئی چیز ریکارڈ پر نہیں آئی جس سے کیس ثابت ہونے کا امکان بھی ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے کے ریکارڈ اور چالان میں حقائق نہیں لیکن خواہشات ضرور ہیں، سابق حکومت کے کہنے پر ایف آئی اے نے بے بنیاد اور جھوٹا کیس بنایا، یہ کیس سیاسی انجینئرنگ کے لیے بنایا گیا۔
جس پر شہباز شریف کے وکیل نے دعویٰ کیا کہ ایف آئی اے نے بدنیتی کی بنیاد پر کیس بنا کر عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ معاملے پر شہباز شریف اور حمزہ شہباز کا میڈیا ٹرائل کیا گیا، ملازمین اور کمپنیوں کے اکاؤنٹس سے شہباز شریف کا کوئی تعلق نہیں ہے، مسرور انور ایک ملازم تھا جو کیش نکلواتا تھا لیکن پاکستان کے کس قانون کے تحت کیش نکلوانا جرم ہے ؟
وکیل نے کہا کہ نیب بھی اسی معاملے پر تفصیلی تحقیقات کر کے ریفرنس دائر کر چکا ہے، مقصود چپڑاسی کی بات کریں تو ایک ملزم ایک الزام میں کتنی بار جیل جائے گا، مقصود چپڑاسی کا نام نیب کی ریمانڈ کی درخواست میں لکھا گیا تھا۔
وکیل امجد پرویز نے مزید کہا کہ نیب نے چھان بین کے باوجود کہیں نہیں کہا مسرور انور نے رقم نکلوا کر شہباز شریف کو دی ،مقصود چپڑاسی اور مسرور انور کا نام تو جسمانی ریمانڈ کی دستاویزات میں بھی تھا۔
قبل ازیں ایف آئی اے نے بینکنگ کورٹ میں ایف آئی اے نے چالان پیش نہیں کیا جب خطرہ ہوا کہ عدالت کارواٸی کرے گی تو عبوری چالان جمع کروا دیا گیا اس سے قبل وفاقی ادارے کی جانب سے سات ماہ تک کوئی چالان جمع نہیں کروایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے پاس معاملے سے متعلق کوئی شہادت موجود نہیں تھی اسی وجہ سے وہ تاخیری حربے استعمال کرتے رہے، یہ مقدمہ صرف میڈیا ٹرائل کے لیے تھا تاکہ وزرا ٹی وی پر بیٹھ کر میڈیا ٹرائل کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ سابق حکومت کا ایک ہی مقصد تھا کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز ایک ہی مقدمہ میں مختلف عدالتوں میں پیش ہوں اور ایف آئی آر کردار کشی اور سیاسی بیانیے پر کاٹی گئیں۔
وکیل نے مزید کہا کہ سلمان شہباز بزنس کرتے تھے اور پاکستان کے کسی قانون کے تحت بزنس کرنا جرم نہیں ہے جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ سلمان شہباز جو اشتہاری ہے، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ جی لیکن یہ بھی دیکھنا ہے کہ سلمان شہباز کو کس نے اشتہاری قرار دیا اس عدالت نے تو اشتہاری ڈکلیئر نہیں کیا ہے۔
وکیل نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ بے نامی ترسیلات پاکستان کے کسی قانون کی جرم نہیں لکھا گیا،2017 میں بے نامی ٹرانزیکشن ایکٹ سامنے آیا تھا اس سے پہلے بے نامی ترسیلات جرم نہیں تھا۔
جج نے استفسار کیا کہ ایک کلرک کیا تجارت کرتا ہے؟ وہ چینی کا کاروبار کھول کر بیٹھا ہے اسکی کیا وضاحت ہے، کلرک یہ کہہ کر بینک اکاؤنٹ کھلوائے کہ اسکا چینی کا کاروبار ہے اسکی کیا وضاحت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گنے کا کاروبار کرنے والے بھی اکاؤنٹ کھلواتے ہوئے یہی کہتے ہیں یہ کوئی جرم نہیں ہے،ایف آئی اے والے جعلی اکاؤنٹس کی بات کرتے ہیں۔
شہباز شریف کے وکیل نے عدالتی استفسار پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر جعلی اکاؤنٹس کی بات ہے تو یہ کیس ایف آئی اے کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا، ایک ہی کیس میں ایک ہی الزام میں دو بار گرفتاری نہیں ہو سکتی۔
دوسری طرف عدالت نے شہباز شریف اور حمزہ شہباز سمیت دیگر ملزمان پر فرد جرم کی کارروائی مؤخر کرتے ہوئے شہباز شریف کے وکیل کو کیس سے متعلق بحث مکمل کرنے کی ہدایت کر دی۔
دریں اثنا، ایف آئی اے کے وکیل نے کیس کی تیاری کے لیے عدالت سے مہلت طلب کرلی جس پر عدالت نے ایف آئی کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیس کی تفتیش مکمل ہو چکی ہے یا چل رہی ہے۔
عدالتی استفسار پر ایف آئی اے کے وکیل نے کا کہنا تھا کہ مجھے کیس کے فیکٹس کے بارے میں ابھی مکمل نہیں معلومات ہے۔
خصوصی عدالت نے شہباز شریف کی حاضری سے معافی کی درخواست منظور کرتے ہوئے وزیر اعظم اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز کی عبوری ضمانت میں 21 مئی تک توسیع کر دی۔
فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کا فیصلہ
صوبائی دارالحکومت لاہور کی خصوصی عدالت کی جانب سے وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے خلاف 16 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کیس میں فرد جرم عائد ہونے سے 3 روز قبل وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کے خلاف ٹرائل نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عدالت میں جمع کرائی گئی تحریری درخواست کے مطابق ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) نے تفتیشی افسر کے توسط سے اسپیشل پراسیکیوٹر سکندر ذوالقرنین سلیم سے کہا کہ وہ عدالت میں پیش نہ ہوں کیونکہ اس مقدمے کے ملزمان پاکستان کے وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب ہیں۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ متعلقہ حلقوں کو ملزمان کے خلاف قانونی چارہ جوئی میں دلچسپی نہیں ہے، اس میں درخواست کی گئی کہ ان ہدایات کو کیس ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔
شریف خاندان کے خلاف منی لانڈرنگ کیس کی تفصیل
ایف آئی اے نے نومبر 2020 میں وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے بیٹوں حمزہ اور سلیمان کے خلاف انسداد بدعنوانی ایکٹ کی دفعہ 34 ، 109، 419، 420، 468 اور 471 جبکہ اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 3/4 کے تحت مقدمہ درج کیا تھا، واضح رہے کہ اس کیس میں وزیر اعظم کے بیٹے سلمان شہباز مفرور ہے جوکہ برطانیہ میں موجود ہیں۔ دوسری طرف انسداد بدعنوانی ایکٹ کی دفعہ 5 (2) اور 5 (3) (مجرمانہ بدانتظامی) کے تحت 14 دیگر افراد کو بھی ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا تھا۔
خصوصی عدالت نے 27 جنوری کو اس مقدمے میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی ضمانت قبل از گرفتاری منظور کی تھی۔
ایف آئی اے کا موقف
اسپیشل پراسیکیوٹر سکندر ذوالقرنین سلیم نے کہا کہ استغاثہ کو کیس میں پیش ہونے سے روک دیا گیا کیونکہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز نے اب عوامی عہدہ سنبھال لیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایف آئی اے حکام نے شہباز شریف، حمزہ شہباز اور دیگر کے خلاف ٹرائل میں عدم دلچسپی کا اظہار کیا۔ واضح رہے کہ یہ اقدام عدالت کی جانب سے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب پر 14 مئی کو فرد جرم عائد ہونے سے محض 3 روز قبل سامنے آیا ہے۔
14 مئی یعنی آج کی پیشی اس لئے بھی اہم تھی کیونکہ گزشتہ سماعت کے دوران عدالت نے وزیر اعظم اور دیگر کو سختی سے ہدایت کی تھی کہ وہ اگلی سماعت پر اپنی حاضری یقینی بنائیں کیونکہ سماعت مزید ملتوی نہیں کی جائے گی اور عدالت مزید کاروائی کرتے ہوئے فردجرم کے فیصلے کے قریب تھی۔ تحریری حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ یہ واضح کیا جاتا ہے کہ سماعت کی اگلی تاریخ پر فرد جرم عائد کی جائے گی اور تمام ملزمان اپنی حاضری کو یقینی بنائیں گے۔
خیال رہے کہ رواں ہفتے کے آغاز میں ایف آئی اے کے سابق ڈائریکٹر محمد رضوان دل کا دورہ پڑنے سے پراسرار طور پر انتقال کر گئے تھے جو شہباز اور ان کے بیٹے کے خلاف الزامات کی تحقیقات کر رہے تھے۔