پنجاب کے 20 حلقوں کے ضمنی انتخابات، حمزہ شہباز کا مستقبل داؤ پر
سیاسی مبصرین کے مطابق ضمنی انتخابات کے نتائج مستقبل کی سیاست کی راہ معین کریں گے۔
پنجاب میں پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کے ڈی سیٹ ہونے کے بعد انتخابی دنگل سج گیا ، پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان کانٹے کے مقابلے ہونے متوقع ہیں۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں ضمنی انتخابات 17 جولائی یعنی آج ہو رہے ہیں۔
پاکستان میں سیاسی حلقوں کی توجہ اس وقت پنجاب کی طرف مرکوز ہے، جہاں آج صوبائی اسمبلی پنجاب کے 20 حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے لیے پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان تحریک انصاف کے مابین کانٹے کے مقابلے کا امکان ہے۔
یہ بھی پڑھیے
پنجاب کے ضمنی انتخابات: پی ٹی آئی کی مقبولیت سیکورٹی اداروں کے لیے درد سر
یہ انتخابات پاکستان تحریک انصاف کے ان منحرف ارکان پنجاب اسمبلی کی نشستوں کے خالی ہونے کے بعد ہو رہے ہیں، جنہیں پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے کی وجہ سے نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔
سیاسی مبصرین کے مطابق ان انتخابات کا نتیجہ نہ صرف ہمیں یہ بتائے گا کہ پنجاب میں اس وقت ہوائیں کس طرف کو چل رہی ہیں بلکہ اس سے مستقبل کی سیاست کے رجحان کا اندازہ بھی لگایا جا سکے گا۔
یہ انتخابات دو وجوہات کی بنا پر اہمیت اختیار کر چکے ہیں۔ ایک یہ کہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا دارومدار اب ان 20 حلقوں پر ہے جو وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز اور اسپیکر پرویز الٰہی کی قسمت کا فیصلہ کریں گے (پرویز الٰہی تحریک انصاف کے وزارت اعلیٰ کے امیدوار ہیں)۔
دوسری بڑی وجہ پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کا بیانیہ ہے۔ تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن اس وقت ملکی معیشت کی زبوں حالی کا الزام ایک دوسرے پر عائد کر رہی ہیں۔ ان 20 حلقوں کے نتائج بہرحال یہ بتانے کے لیے کافی ہوں گے کہ کس جماعت کے بیانیے کا پلڑا بھاری ہے۔
پنجاب کے14 اضلاع کے 20 حلقوں میں ضمنی انتخاب کا معرکہ
پنجاب میں اہم ترین ضمنی انتخابات کا میدان آج سج چکا ہے۔ جس کیلئے پولنگ صبح 8 بجے سے شام 5 بجے تک جاری رہے گی۔ ان 20 حلقوں میں 175 امیدواروں میں مقابلہ ہوگا۔ الیکشن کمیشن کے مطابق مجموعی طور پر 45 لاکھ 79 ہزار 898 ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ رجسٹرڈ ووٹرز میں 24 لاکھ 60 ہزار 206 مرد ، 21 لاکھ 19 ہزار 692 خواتین ووٹرز شامل ہیں۔
تفصیلات کے مطابق 20 حلقوں کے لیے 3 ہزار 131 پولنگ اسٹیشنز قائم کیے گئے ہیں۔ مرد پولنگ اسٹیشنز کی تعداد731، خواتین کیلئے700 جبکہ 1700 مشترکہ اسٹیشنز قائم کیے گئے ہیں۔
مجموعی طور پر 1900 پولنگ اسٹیشن حساس قرار دیے گئے ہیں۔ 696 پولنگ اسٹیشنز انتہائی حساس جبکہ ایک ہزار 204 حساس قرار دیے گئے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے مطابق لاہور اور ملتان کے حلقے انتہائی حساس اضلاع قرار دیئے گئے ہیں لاہور کے تمام پولنگ اسٹیشنوں کو حساس قرار دیا گیا ہے۔
ذرائع الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ انتہائی حساس پولنگ اسٹیشنوں پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے گئے ہیں، پولیس اور رینجرز کی نفری حساس، انتہائی حساس پولنگ اسٹیشنوں پر ڈیوٹی سر انجام دے گی۔
20 صوبائی حلقوں کی تفصیلات
پاکستان کے سب سے بڑے صوبے ، صوبہ پنجاب کے 14 اضلاع کی 20 صوبائی اسمبلی پنجاب کی نشستوں میں آج الیکشن ہو رہا ہے جس میں صوبائی دارالحکومت لاہور کے چار حلقے بھی شامل ہے۔ اگر حلقہ وار ان کا جائزہ لیں تو سب سے پہلے راولپنڈی کا حلقہ پی پی 7 موجودہ انتخابات میں ایک مشکل اور اہم انتخابی میدان سمجھا جا رہا ہے۔ 2018 کے عام انتخابات میں یہاں سے آزاد امیدوار راجہ اصغر احمد 44 ہزار سے زائد ووٹ لے کر کامیاب ہو کر تحریک انصاف میں شمولیت حاصل کر لی۔
راجہ اصغر احمد بعد میں تحریک انصاف کے منحرف اراکین میں شامل ہو گئے اور اب وہ ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ جبکہ تحریک انصاف نے ان کے مقابلے میں کرنل (ر) شبیر اعوان کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔
دوسرے نمبر پر ضلع خوشاب کے صوبائی حلقہ پی پی 83 میں عام انتخابات 2018 میں آزاد امیدوار ملک غلام رسول سنگھا کامیاب ہوکر پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے تھے۔ اب ضمنی انتخابات میں امیر حیدر سنگھا ن لیگ اور پی ٹی آئی کے حسن ملک کے درمیان مقابلہ ہے۔
تیسرے نمبر پر ضلع بھکر کے صوبائی حلقہ پی پی 90 میں آزاد امیدوار سیعد اکبر نوانی 2018 کے عام انتخابات میں جیت کر تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے ان کے مقابلے میں ن لیگ کے عرفان اللہ خان نیازی امیدوار تھے۔ اب تحریک انصاف نے عرفان اللہ خان نیازی کو میدان میں اترا یے جبکہ ن لیگ نے سعید اکبر نوانی کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔
چوتھے نمبر فیصل آباد کے حلقہ پی پی 97 چک جھمرہ سے ن لیگ کے امیدوار اجمل چیمہ ہیں جو اس حلقے سے آزاد منتخب ہوئے تھے بعد میں تحریک انصاف میں شامل ہوگئے ۔ ان کے مقابلے میں تحریک انصاف نے علی افضل ساہی کو ٹکٹ دیا ہے جوکہ لاہور ہائیکورٹ کے موجودہ چیف جسٹس امیر بھٹی کے داماد ہیں۔
پانچواں نمبر پر جھنگ کے حلقہ پی پی 125 میں 2018 کے عام انتخابات میں آزاد حیثیت سے فیصل حیات جبوانہ جیت کر پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے ۔ اس ضمنی الیکشن میں ن لیگ نے فیصل جبوانہ کو ٹکٹ جاری کیا ہے جبکہ تحریک انصاف نے اعظم چھیلا کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔
چھویں نمبر جھنگ کے حلقہ پی پی 127 میں عام انتخابات 2018 میں محمد اسلم بھروانہ آزاد حیثیت سے تحریک انصاف شامل ہوئے تھے ۔ ضمنی انتخاب میں ن لیگ نے محمد اسلم بھروانہ جبکہ پی ٹی آئی آئی نے محمد نواز بھروانہ کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔
ساتویں نمبر پر شیخوپورہ کے حلقہ پی پی 140 میں مسلم لیگ ن نے میاں خالد آرائیں جبکہ تحریک انصاف نے ایک نئے امیدوار خرم شہزاد ورک کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔
آٹھویں نمبر پر لاہور کا پہلا حلقہ پی پی 158 کا نمبر آتا ہے۔ یہ حلقہ 2018 کے انتخابات میں اس وقت کے تحریک انصاف کے رہنما علیم خان کامیاب ہوئے تھے۔ علیم خان نے 52 ہزار سے زائد ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی تھی۔ جبکہ مسلم لیگ ن کے امیدوار رانا احسن شرافت 45 ہزار سے زائد ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔ اب مسلم لیگ ن نے ٹکٹ دوبارہ احسن شرافت کو جاری کیا ہے۔ جنہیں اب علیم خان، پیپلزپارٹی اور پی ڈی ایم کی حمایت حاصل ہے۔ ان کے مقابلے میں تحریک انصاف نے میاں اکرم عثمان کو ٹکٹ جاری کیا ہے جو کہ پارٹی رہنما میاں محمود الرشید کے داماد ہیں۔
لاہور کا دوسرا حلقہ پی پی 167 ہے اس حلقے سے 2018 میں تحریک انصاف کے نذیر احمد چوہان نے مسلم لیگ ن کے میاں محمد سلیم کو ہرا کر کامیابی حاصل کی تھی جبکہ اب مسلم لیگ نے نذیر چوہان کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔ جبکہ تحریک انصاف نے اپنے ایک کارکن شبیر گجر کو میدان میں اتارا ہے۔ نذیر چوہان کا شمار جہانگیر ترین کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے۔
صوبائی دارالحکومت کا تیسرا حلقہ پی پی 168 ہے۔ 2018 کے عام انتخابات میں ن لیگ کے سعد رفیق نے یہاں سے کامیابی سمیٹی تھی۔ بعد ازاں ان کے مستعفی ہونے پر ضمی انتخابات میں تحریک انصاف کے اسد کھوکھر جیت گئے۔ اسد کھوکھر جب تحریک انصاف کے منحرف گروپ میں شامل ہوئے تو اب ن لیگ نے انہیں ٹکٹ جاری کیا ہے۔ ان کے مقابلے میں تحریک انصاف نے اپنے ایک کارکن ملک نواز اعوان کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔
چوتھا حلقہ پی پی 170 ہے یہاں سے مسلم لیگ ن کی جانب سے چوہدری امین گجر امیدوار ہیں۔ چوہدری امین گجر ماضی میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے دست راست سمجھے جانے والے اور موجودہ وزیراعظم شہباز شریف کے مشیر عون چوہدری کے بھائی ہیں۔ ان کے مقابلے میں تحریک انصاف نے ظہیر کھوکھر کو اپنا امیدوار نامزد کیا ہے۔
باریں نمبر پر ساہیوال کے حلقہ پی پی 202 سے نعمان لنگڑیال ن لیگ کی ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں تحریک انصاف نے ایک ریٹائرڈ فوجی افسر میجر ر غلام سرور کو ٹکٹ جاری کیا یے
تیرویں نمبر پر ملتان شہر کے حلقہ پی پی 217 کی صورت حال بھی دلچسپی سے کم نہیں جہاں تحریک انصاف کے مرکزی رہنما شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں۔ جبکہ ان کے مقابلے میں سلمان نعیم ن لیگ کے ٹکٹ ہولڈر ہیں جنہوں نے 2018 کے عام انتخابات میں شاہ محمود قریشی کو آزاد حیثیت میں اسی حلقے سے شکست دی تھی۔ بعد میں وہ تحریک انصاف میں شامل ہو گئے اور وہ جہانگیر ترین کے بہت قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے ہیں۔
چودیں نمبر پر لودھراں کے حلقہ پی پی 224 سے 2018 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کے زوار وڑائچ 60 ہزار ووٹ لے کر منتخب ہوئے تھے۔ بعد ازاں وہ بزدار حکومت میں وزیر بھی رہے۔ تاہم پھر وہ منحرف ہوگئے اور ترین گروپ میں آگئے۔ ان کے مقابلے میں مسلم لیگ ن کے عامر اقبال شاہ نے 48 ہزار ووٹ حاصل کیے تھے اور دوسرے نمبر پر رہے۔ ان ضمنی انتخابات میں زوار وڑائچ مسلم لیگ ن جبکہ عامر اقبال شاہ تحریک انصاف کے امیدوار ہیں۔
جہانگیر ترین کے آبائی علاقے لودھراں پی پی 228 میں مسلم لیگ ن نے تحریک انصاف کے منحرف سابق رکن اسمبلی نذیر احمد بلوچ کو ٹکٹ جاری کیا ہے جبکہ تحریک انصاف نے یہاں بھی ایک ریٹائرڈ فوجی افسر کیپٹن ریٹائرڈ عزت جاوید کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔ عزت جاوید 2018 میں آزاد حیثیت میں میدان بھی اترے تھے۔
بہاولنگر کے حلقہ پی پی 237 سے آزاد امیدوار میاں فدا حسین آزاد حیثیت میں جیتے تھے بعد میں تحریک انصاف میں آئے اور اب ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ جبکہ تحریک انصاف نے ان کے مقابلے سید آفتاب رضا کو اپنا امیدوار چنا ہے
ان ضمنی انتخابات کا واحد حلقہ جہاں خواتین امیدوار ہیں ۔ سیدہ زہرہ بتول بخاری ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہی ہیں ان کا تعلق جنوبی پنجاب کے حلقہ 272 مظفر گڑھ سے ہے۔ زہرہ بتول نے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر 2018 کا ضمنی الیکشن لڑا تھا اور کامیاب ہوئی تھیں۔اس سیٹ پر سب سے دلچسپ مقابلہ ہو رہا ہے کیونکہ ان کے مقابلے میں ان کا اپنا بیٹا ہارون بخاری اور بہو بینش بخاری آزاد امیدوار ہیں۔ جبکہ تحریک انصاف نے اس حلقے میں معظم جتوئی کو ٹکٹ دے دیا ہے۔
مظفر گڑھ کے ہی حلقہ پی پی 273 میں مسلم لیگ ن نے محمد سبطین رضا کو ٹکٹ جاری کر رکھا ہے جوکہ 2018 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے۔ جبکہ تحریک انصاف نے یہاں سے یاسر عرفات جتوئی کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔ سیاسی پنڈتوں کا ماننا ہے کہ مظفر گڑھ کے دونوں حلقوں میں تحریک انصاف نے جتوئی قبلیے کو اکھٹا کر لیا ہے۔ جس سے مقابلہ سخت ہو گیا ہے۔
لیہ کے حلقہ پی پی 282 سے مسلم لیگ ن نے محمد طاہر رندھاوا کو ٹکٹ جاری کیا ہے جنہوں نے 2018 کے عام انتخابات میں آزاد حیثیت سے الیکشن جیتا اور پھر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔ جب کہ ان کے مقابلے میں تحریک انصاف نے اپنے پرانے ہارنے والے امیدوار قیصر عباس کو ہی ٹکٹ جاری کیا ہے۔ اٹھا رہ کے انتخابات میں ن لیگ کے امیدوار محمد ریا ض اس حلقے میں تیسرے نمبر پر آئے تھے۔
بیسواں اور آخری حلقہ ڈی جی خان پی پی 288 کی صورت حال بھی جنوبی پنجاب کے باقی حلقوں جیسی ہے۔ یہاں بھی ن لیگ نے محسن عطا خان کھوسہ کے بھانجے عبدالقادر خان کھوسہ کوٹکٹ جاری کیا ہے ۔ اس سیٹ سے محسن عطا خان کھوسہ اٹھارہ کے عام انتخابات میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے جیتے تھے۔ اور بعد میں تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔