وفاقی حکومت کا انقلابی اقدام ، 10700 اسکولز شمسی توانائی پر منتقل
ماہرین کے مطابق شمسی توانائی کی پیداوار کے لیے پاکستان دنیا بھر میں تیسرا موزوں ترین ملک سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہاں سال میں 315 دن دھوپ چمکتی ہے۔
پنجاب کے دور دراز علاقوں میں واقع 10 ہزار 7 سو اسکولز شمسی توانائی پر منتقل کر دیے گئے جب کہ مزید 4 ہزار 2 سو اسکولز ، 2 ہزار اسپتال اور بنیادی مراکز صحت کو بھی شمسی توانائی پر منتقل کیا جائے گا۔
حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ اور دفتر کو بھی ایک ماہ کے اندر شمسی توانائی پر منتقل کر دیا جائے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان کا مستقبل شمسی توانائی سے وابستہ ہے کیونکہ شمسی توانائی بجلی پیدا کرنے کا صاف، سستا اور ماحول دوست ذریعہ ہے جس سے نہ صرف عام آدمی پر مہنگائی کا بوجھ کم ہوگا بلکہ اس سے ترسیلی نقصانات، بجلی چوری اور گردشی قرضوں میں بھی کمی ممکن ہوسکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
ضمنی انتخابات سے قبل اے این پی کے نامزد امیدوار پی ٹی آئی کے حق میں دستبردار
ضمنی انتخابات: پنجاب کے تمام بڑے چینلز پی ٹی آئی کی جیت بتانے لگے
پاکستان میں شمسی توانائی سے بجلی کے حصول کا طریقہ تیزی سے مقبول ہو رہا ہے۔ وطن عزیز کے لاکھوں شہری اپنے گھروں اور دیگر عمارتوں کے سولر پینل نصب کروا چکے ہیں بلکہ سرکاری سطح پر بھی شمسی توانائی کے کئی منصوبے کامیابی سے مکمل کیے جا چکے ہیں۔
جن میں پنجاب کے 10 ہزار 7 سو سرکاری اسکول بھی شامل ہیں۔ان اسکولوں کو ایشیائی ترقیاتی بینک کی معاونت سے شمسی توانائی سے بجلی کی فراہمی کا منصوبہ مکمل کرلیا گیا ہے۔
ایک ایشیائی ترقیاتی بینک کے ترجمان کے مطابق ماحول دوست توانائی سرمایہ کاری تک رسائی کے پروگرام کے ذریعے پنجاب اب کے دس ہزار سات سو اسکولوں میں شمسی توانائی کے پینلز کی تنصیب مکمل کرلی گئی ہے اور موسم گرما میں ان اسکولوں کو بلا تعطل بجلی فراہم کی جارہی ہے۔ جس سے طلبا اور اساتذہ کو سہولت حاصل ہوئی ہے وہاں بجلی کے بلوں میں بھی ابھی حکومت کو بچت ہو رہی ہے۔
پنجاب کے جن اسکولوں کو شمسی توانائی کے ذریعے بجلی فراہم کی جارہی ہے ان میں سے زیادہ تر اسکول پنجاب کے دور دراز اور پسماندہ علاقوں میں واقع ہیں جہاں یا تو بجلی موجود ہی نہیں یا بجلی کی مسلسل فراہمی میں مشکلات کا سامنا تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت سستی اور ماحول دوست توانائی کے منصوبوں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے جس کے تحت مزید 4200 اسکولوں کو شمسی توانائی پر منتقل کیا جارہا ہے جبکہ اس پروجیکٹ کے تحت ایشیائی ترقیاتی بینک کے تعاون سے دو ہزار اسپتالوں اور بنیادی صحت کے مراکز میں بھی سولر پینلز نصب کئے جائیں گے تاکہ دیہی علاقوں میں عوام کو بنیادی صحت کی خدمات کی فراہمی یقینی بنائی جاسکے۔
حکومت اعلان کر چکی ہے کہ وزیراعظم کے دفتر اور سرکاری رہائش گاہ کو ایک ماہ میں شمسی توانائی پر منتقل کر دیا جائے گا۔
وزیراعظم شہباز شریف کہہ چکے ہیں کہ وہ یکم اگست کو قومی سولر پالیسی کا اعلان کریں گے۔جس کے تحت آئندہ دس برسوں میں سرکاری عمارتوں پر ایک ہزار میگا واٹ تک کہ شمسی توانائی پیدا کرنے والے پینل نصب کیے جائیں گے۔
بلوچستان میں حکومت کے فنڈز سے ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کا منصوبہ بھی زیر غور ہے، جس کے تحت صوبے کے 30 ہزار ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی کے ذریعے بجلی فراہم کی جائے گی ،اس منصوبے پر 300 ارب روپے کی لاگت آئے گی۔بلوچستان کے زرعی ٹیوب ویلوں کے بجلی بلوں کی ادائی میں معاونت کے لئےصوبائی اور وفاقی حکومت اربوں روپے ادا کرتی ہے۔ٹیوب ویلوں کی شمسی توانائی پر منتقلی سے قومی خزانے کو سالانہ اربوں روپے کی بچت ہوگی۔
حکومت تیل سے چلنے والے بجلی گھروں اور 11 کلو واٹ کے دو ہزار فیڈرز کو بھی شمسی توانائی پر منتقل کرنے پر غور کررہی ہے۔
پاکستان کی پارلیمنٹ کو پہلے ہی چین کے تعاون سے شمسی توانائی پر منتقل کیا جا چکا ہے ،اس طرح پاکستانی پارلیمنٹ دنیا کی پہلی پارلیمنٹ ہے جو بجلی کی ضروریات شمسی توانائی سے پوری کر رہی ہے۔
ماہرین کے مطابق شمسی توانائی کی پیداوار کے لیے پاکستان دنیا بھر میں تیسرا موزوں ترین ملک سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہاں سال میں 315 دن دھوپ چمکتی ہے۔ مگر پاکستان شمسی توانائی پیدا کرنے والے ممالک کی فہرست میں اب بھی 44 ویں نمبر پر ہے۔