ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ خلاف قانون ہے ، قانونی ماہرین کی رائے
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سردار دوست محمد مزاری نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط انداز میں تشریح کی۔
حمزہ شہباز شریف پھر وزیراعلیٰ پنجاب بن گئے اور انہوں نے اپنے عہدے کا حلف بھی اٹھا لیا ہے ، تاہم قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بیل منڈھے چڑھتے دکھائی نہیں دیتی کیونکہ ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی سردار دوست محمد مزاری نے سپریم کورٹ کے 63 اے پر دیئے گئے فیصلے کی غلط انداز میں تشریح کی ہے۔
حمزہ شہباز شریف نے بطور وزیراعلیٰ پنجاب اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے ، گورنر پنجاب بلیغ الرحمان نے حمزہ شہباز شریف سے حلف لیا۔
تقریب کا باقاعدہ آغاز قرآن پاک کی تلاوت سے ہوا۔ ضابطے کے مطابق چیف سیکریٹری پنجاب سردار علی خان نے گورنر پنجاب بلیغ الرحمان سے درخواست کی کہ وہ حمزہ شہباز سے وزیراعلیٰ پنجاب کے منصب کا حلف لیں۔
یہ بھی پڑھیے
پرویز الٰہی الیکشن جیت گئے، حمزہ کو پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ مل گئی
گزشتہ روز پنجاب اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی سردار دوست محمد کھوسہ کی زیر صدارت شروع ہوا۔ اجلاس خصوصی طور پر سپریم کورٹ کے حکم پر وزیراعلیٰ کے انتخابات کے لیے بلایا گیا، سارے دن کی کشمکش کے بعد اجلاس تین گھنٹے تاخیر سے شروع ہوا۔
ووٹنگ کے عمل مکمل ہوا تو پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار چوہدری پرویز الہٰی نے 186 ووٹ حاصل کیے جبکہ اتحادی جماعتوں کے امیدوار حمزہ شہباز شریف نے 179 ووٹ حاصل کیے۔
ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے نتیجہ کا اعلان کرتے ہوئے حمزہ شہباز کو فاتح قرار دیا ، ان کا کہنا تھا کہ پارٹی کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کے خط کی روشنی میں ق لیگ کے تمام 10 ووٹ مسترد کیے جاتے ہیں ، دس ووٹ مسترد ہونے پر حمزہ شہباز کو 3 ووٹوں کی سبقت حاصل ہو گئی ہے اس لیے حمزہ شہباز شریف ہی وزیراعلیٰ پنجاب رہیں گے۔
ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ اور قانونی ماہرین کی رائے
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے سپریم کورٹ کے احکامات کی غلط انداز میں تشریح کی ہے جوکہ ایک نئے سیاسی اور قانونی بحران کو جنم دے سکتا ہے۔
معروف قانون دان سلمان اکرم راجہ نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹر ٹوئٹر پر پیغام شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کے ارکان کو پارلیمانی پارٹی کے فیصلے کے برعکس ووٹ دینے سے نہیں روک سکتا۔”
Party head can’t stop the members of the parliamentary party from voting in accordance with the decision of the parliamentary party. Ar 63A is clear. Some manipulations of the Constitution are sad, this one is just silly.
— salman akram raja (@salmanAraja) July 22, 2022
انہوں نے لکھا ہے کہ "اس حوالے سے آرٹیکل 63 اے بہت واضح ہے۔ یہ محض احمقانہ فیصلہ ہے۔”
قانونی میدان میں جانی مانی شخصیت سمیر کھوسہ نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا ہے کہ "سپریم کورٹ کے حکم نامے کا حوالہ دیتے ہوئے لوگوں نے کہا ہے کہ پارلیمانی پارٹی کے سربراہ کی ہدایات کے برعکس ووٹ نہیں ڈالا جا سکتا۔”
People citing SC order… the order says that vote cannot be cast contrary to directions of parliamentary party. Parl. party cannot be same as Party Head Given two separate terms used in 63A. SC does not say parl. party = party head. Ruling is not in line with SC order at all. pic.twitter.com/19ju2eas7C
— Sameer Khosa (@SameerKhosa) July 22, 2022
انہوں نے مزید لکھا ہے کہ پارٹی سربراہ کے حوالے سے 63 اے میں دو الگ الگ اصطلاحات پیش نہیں کی جاسکتیں۔ سپریم کو فیصلہ حصوں میں تقسیم نہیں تھا۔ جو فیصلہ دیا گیا وہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق نہیں ہے۔
قانونی ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ کل سیاہ دن نہیں بلکہ سیاہ رات تھی جب ایک ڈپٹی اسپیکر نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط طریقے سے تشریح کی اور جس نے ملک میں ایک نئے سیاسی بحران کو جنم دے دیا ہے۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈپٹی اسپیکر کے فیصلے کے خلاف پٹیشن دائر کردی گئی ہے اور جہاں تک آرٹیکل 63 اے کی تشریح کی بات ہے بہت ممکن ہے کہ پہلے ہی سماعت میں سپریم کورٹ سردار دوست محمد مزاری کی رولنگ کو رول آؤٹ کردے۔