پنجاب کمیشن برائے حقوق خواتین کی چیئرپرسن کا عہدہ تین سال سے خالی
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے میڈیا پر ہر روز ایسی خبریں ہیڈ لائن کی زینت بنتی رہتی ہیں جن میں خواتین کو امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے ، مگر پھر بھی حکومتی سطح پر ان کے تدارک کے لیے کوئی عملی اقدام نہیں کیا جاتا ہے۔
پنجاب کمیشن برائے حقوق خواتین کی چیئرپرسن کی تقرری تین سال سے نہیں ہوسکی، کمیشن کے 7 پراجیکٹس بند ہوگئے۔
ذرائع کے مطابق 2019 میں پنجاب کمیشن برائے حقوق خواتین کی چیئرپرسن فوزیہ وقار کو کانٹریکٹ ختم ہونے سے پہلے فارغ کردیا گیا تھا ، جس کے بعد کمیشن میں چیئرپرسن کی تقرری نہ ہونے کے باعث 7 پراجیکٹس بند ہوگئے جبکہ کئی پراجیکٹس سست روی کا شکار ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
مریم نواز کے پاسپورٹ کا معاملہ: لاہور ہائیکورٹ سے حکام کو 27 ستمبر تک کے نوٹسز جاری
پسند کی شادیوں کا معاملہ، کراچی کی عدالتوں سے لاہور کی عدالتوں تک پہنچ گیا
ذرائع کے مطابق کمیشن کے 9 ممبرز کی جگہ 5 ڈویژنل کوآرڈی نیٹرزکام کر رہے ہیں۔
سکریٹری وومین ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ سمیرا صمد کا کہنا ہے کہ کچھ اختیارات صرف چیئرپرسن کے پاس ہوتے ہیں اس لیے پراجیکٹس بند ہو گئے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے میڈیا پر ہر روز ایسی خبریں ہیڈ لائن کی زینت بنتی رہتی ہیں جن میں خواتین کو امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے ، مگر پھر بھی حکومتی سطح پر ان سب کے تدارک کے لیے کوئی عملی اقدام نہیں کیا جاتا ہے۔ پنجاب حکومت نے 2014 میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے پنجاب کمیشن برائے حقوق خواتین تشکیل دیا تھا مگر 2019 میں اس عہدے پر تعینات چیئرپرسن کو کانٹریکٹ مکمل ہونے سے پہلے ہی ہٹا دیا گیا ، جس کے بعد سے یہ عہدہ خالی پڑا ہے۔ جو اس بات کی واضح نشانی ہے کہ حکومت زبانی دعوے تو بہت کرتی ہے مگر عمل طور پر کارکردگی صفر ہے۔ موجودہ پنجاب حکومت کو اپنے سابقہ فیصلے پر نظرثانی کرنا چاہیے اور جلدازجلد چیئرپرسن کو تعیناتی کو یقینی بنایا چاہیے تاکہ خواتین کے حقوق کی حفاظت کو یقینی بنایا جاسکے۔