پنجاب اسمبلی سے اعتماد کے ووٹ کا معاملہ: عمران خان اور پرویز الہیٰ کی حکمت عملی کامیاب

لاہور ہائی کورٹ میں سماعت کا دن آگیا ، شہباز شریف حکومت کے وفاقی وزراء اور سابق صدر آصف علی زرداری کی چوہدری پرویز الہیٰ سے پنجاب اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کی تمام کوششیں رائیگاں چلی گئیں۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وفاقی وزراء اور پییلز پارٹی کے کوچیئرمین آصف علی زرداری کی تمام کوششوں کو رائیگاں کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کی قیادت اور چوہدری پرویز الہیٰ نے بہترین حکمت عملی ترتیب دیتے ہوئے اپنی وزارت اعلیٰ کو بچا لیا ہے۔

23 دسمبر کو گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمان نے اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ نہ لینے پر وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کو ڈی نوٹیفائی کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

تحریک انصاف کا 25 دسمبر سے 16 جنوری تک پنجاب بھر میں ریلیاں نکالنے کا اعلان

وزیراعلیٰ پنجاب کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ چوہدری پرویز الہیٰ نئے وزیراعلیٰ کے تقرر تک کام کرتے رہیں گے۔

گورنر پنجاب محمد بلیغ  الرحمان کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ان حقائق کے نتیجے میں کہ وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہیٰ نے آئین کے آرٹیکل 130(7) کے تحت 19 دسمبر 2022 کو میرے   جاری کردہ حکم نامے کے مطابق کل شام 4 بجے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے سے گریز کیا ، اور مزید 24 گھنٹے گزر جانے کے بعد بھی انہوں نے اعتماد کا ووٹ نہیں لیا۔ اس لیے انہیں وزارت اعلیٰ سے ڈی نوٹیفائی کیا جاتا ہے۔

تاہم 23 دسمبر کو ہی لاہور ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی کی جانب سے گورنر پنجاب کے حکم کے خلاف حکم امتناع کے لیے درخواست دائر کی گئی ، اور فوری سماعت کی استدعا کی گئی۔

لاہور ہائیکورٹ کے لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی اور چوہدری پرویز الہیٰ کی انڈرٹیکنگ کے بعد گورنر پنجاب بلیغ الرحمان کے حکم کو معطل کرتے ہوئے پرویز الٰہی اور پنجاب کابینہ کو بحال کر دیا تھا۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے وقفے کے بعد سماعت شروع کی تو وکیل علی ظفر نے پرویز الہٰی کی جانب سے دی گئی انڈرٹیکنگ پڑھ کر سنائی۔

وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی نے وکیل نے آئندہ سماعت تک اسمبلی نہ توڑنے کا تحریری حلف نامہ جمع کروایا جس میں یقین دہانی کروائی گئی ہے اگر مجھے بطور وزیر اعلیٰ اور کابینہ کو بحال کر دیا جاتا ہے تو آئندہ سماعت تک اسمبلی تحلیل نہیں کریں گے۔

دوران سماعت مسلم لیگ (ن) کے وکیل نے کہا تھا کہ چونکہ گورنر نے چوہدری پرویز الہیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہنا تھا اس عدالت انہیں پابند کرے کہ یہ اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیں ، جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ یہ ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں آتا ہے کہ انہیں مجبور کریں کہ یہ اسمبلی کا اعتماد کا ووٹ لیں۔

9 جنوری کو شروع ہونے والے پنجاب اسمبلی کے اجلاس کا ایجنڈا جاری کیا گیا تھا ، ایجنڈے کے مطابق اجلاس میں محکمہ اسکول ایجوکیشن سے متعلق سوالات دریافت کیے جائیں گے، جبکہ چوہدری پرویز الہیٰ کا پنجاب اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینا یا نہیں یہ ایجنڈے کا حصہ نہیں تھا۔

گذشتہ روز سے اعتماد کے ووٹ کو ناکام بنانے کے لیے سارے وفاقی وزراء وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد ، وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اور معاون خصوصی عطاء اللہ تارڑ بھی اسلام آباد کو چھوڑ چھاڑ کر لاہور میں بیٹھے ہوئے تھے، اس سب کے باوجود چوہدری پرویز الہیٰ کو مجبور نہیں کرپائے کہ وہ اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیں۔

دوسری جانب گورنر پنجاب بلیغ الرحمان نے ٹوئٹ کردیا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ اعتماد کا ووٹ نہ لینے کی بنا پر چوہدری پرویز الہیٰ کی وزارت اعلیٰ کو رخصت کردے گی۔

لاہور ہائی کورٹ میں سماعت کا دن تو آگیا ، مگر ن لیگ چوہدری پرویز الہیٰ کو اعتماد کے ووٹ کے لیے قائل نہیں کرپائی۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی اور پرویز الہیٰ نے کامیاب حکمت عملی کے تحت اپنی وزارت اعلیٰ کو بھی بچا لیا اور پیپلز پارٹی کے کوچیئرمین آصف علی زرداری اور وفاقی وزراء کی کاوشوں کو کھوہ کھاتے میں ڈال دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ لاہور ہائی کورٹ اپنی آج کی سماعت میں کیا فیصلہ دیتی ہے ، تاہم ابھی تک حکمران جماعت کا پلڑا بھاری دکھائی دے رہا ہے۔

متعلقہ تحاریر