وزیراعلیٰ پنجاب کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا معاملہ: لاہور ہائیکورٹ سے گورنر کے حکم پر مزید ایک روز کا حکم امتناع جاری

لاہور ہائیکورٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے گورنر بلیغ الرحمان کے حکم پر حکم امتناعی میں مزید ایک دن کی توسیع کر دی ہے۔

لاہور ہائیکورٹ میں گورنر پنجاب کے وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کو عہدے سے ہٹانے کیخلاف درخواست پر سماعت کل نو بجے تک ملتوی کردی گئی۔

تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں گورنر پنجاب کے وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کو عہدے سے ہٹانے کیخلاف درخواست پر سماعت جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے کی۔

یہ بھی پڑھیے

خیبر پختونخوا شدت پسندی اور دہشتگردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا خطہ ہے، محمود خان

متحدہ لندن کابلدیاتی الیکشن کےبائیکاٹ کا اعلان، کراچی میں وال چاکنگ شروع

لارجر بینچ میں جسٹس چودھری محمد اقبال، جسٹس طارق سلیم شیخ ، جسٹس مزمل اختر شبیر اور جسٹس عاصم حفیظ بھی شامل تھے۔

امروز ہونے والی سماعت گیارہ بجے شروع ہوئی۔ جسٹس عابد عزیز شیخ استفسار کیا کہ معاملہ حل نہیں ہوا۔؟

وکیل گورنر نے کہا کہ یہ اعتماد کا ووٹ لیں گے تو حل ہو گا۔

عدالت نے گورنر کے وکیل سے استفسار کیا کہ بتائیے کیا آفر ہے آپ کے پاس؟

گورنر کے وکیل نے کہا کہ ہم نے آفر دی تھی کہ دو سے تین دنوں میں اعتماد کا ووٹ لیں ، مگر انہوں نے ہماری آفر نظر انداز کردی۔ گزشتہ سماعت سے آج تک کافی وقت گزر گیا ہے لیکن اعتماد کا ووٹ نہیں لیا گا ، یہ انکی بدنیتی ظاہر کو کرتا ہے، عدالت نے اعتماد کا ووٹ لینے کا وقت مقرر فرما دے۔

جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ منظور وٹو کیس دیکھ لیں اس میں بھی 2 دن کا وقت دیا گیا تھا جو مناسب نہیں تھا۔

جسٹس عابد عزیز شیخ کا وکیل چوہدری پرویز الہی سے استفسار کیا کہ اب تو 17 دن ویسے بھی گرز چکے ہیں آپ بتائیں اور کتنا مناسب وقت چاہیے؟ ہم کوئی تاریخ فکس کر دیتے ہیں اور گورنر کے آرڈر کو موڈیفائی کر دیتے ہیں، آپ بتائیں اعتماد کا ووٹ لینے کےلیے کتنے دن کا وقت آپکے لیے مناسب ہوگا۔

وکیل پرویز الٰہی نے کہا کہ میں اس حوالے سے کچھ گذارشات کرنا چاہتا ہوں ، گورنر پنجاب نے اعتماد کا ووٹ لینے کےلیے کہا اور اسپیکر کو خط لکھا ، گورنر اپنے خط میں لکھا کہ وزیراعلی اعتماد کھو چکے ہیں ، گورنر کے حکم کے جواب میں اسپیکر نے رولنگ دی، اسپیکر کی رولنگ کو تاحال چیلنج نہیں کیا گیا۔ ہم چاہتے ہیں کہ عدالت گورنر کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کی درخواست پر میرٹ پر فیصلہ کرے۔

جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ تو کیا آپ اعتماد کا ووٹ لینے کی آفر قبول نہیں کر رہے ، آپ کا اعتراض تھا کہ گورنر نے اعتماد کے ووٹ کے لیے مناسب وقت نہیں دیا۔؟

جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ اس بات میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ وزیر اعلی کو 24 گھنٹے اکثریت کا اعتماد حاصل ہونا چاہیے ، چوہدری پرویز الہی کے وکیل نے گورنر پنجاب کیجانب سے اعتماد کا ووٹ لینے کی آفر مسترد کر دی۔

جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ پھر ہم اس درخواست کا میرٹ پر فیصلہ کر دیتے ہیں۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ کل سے اپنے دلائل کا آغاز کر دوں گا۔ جس پر عدالت نے کہا کہ کل سے نہیں آپ اپنے دلائل شروع کریں۔ ہمارا تو خیال تھا کہ آپ آفر قبول کریں گے اور اعتماد کا ووٹ لے لیں گے.

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہم گورنر کی آفر پر بعد میں آئیں گے.

جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ گورنر تو نوٹیفکیشن واپس لینے کو تیار ہیں اگر آپ اعتماد کا ووٹ لے لیں۔ ہم روزانہ کی بنیاد پر کیس کو سنیں گے۔

اٹارنی جنرل نے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض کر دیا۔ گورنر کو کوئی فیصلہ کرتے ہوئے وجوہات دینا ضروری ہیں۔

جسٹس عاصم نے کہا کہ سیاسی کشیدگی جاری ہے، سیاسی جماعتیں یہ چاہتی ہیں کہ پہلے جو کال کرے وہ پھنسے۔ ہم نے اتفاق رائے سے عدم اعتماد کے ووٹ کی ہدایت کی تھی۔ آئین پاکستان کے تھے اعتماد کے ووٹ کے لیے کم سے کم تین روز ضروری ہیں۔

علی ظفر ایڈووکیٹ نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے اعتماد کے ووٹ کے لیے تحریری پیشکش نہیں کی۔

جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ گورنر کا اعتماد کے ووٹ کے لیے مناسب وقت دینا ضروری ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ گورنر اس وقت  اپنے اختیارات استعمال کرتا ہے جب اس کو وزیر اعلیٰ پر اعتماد نہ رہے مگر رات کی تاریکی میں نوٹیفکیشن جاری کرکے کہا گیا کہ کل اعتماد کا ووٹ لیں۔ اعتماد کا ووٹ لینے کا کہنے کا کے لیے پورا طریقہ کار موجود ہے ، یہ ممکن نہیں ہے گورنر اچانک صبح اٹھ کر کہیں کہ اعتماد کا ووٹ لیں ، پانچ ماہ قبل وزیر اعلیٰ نے اسمبلی میں اپنی اکثریت دکھائی تھی ، آئین میں اسمبلی توڑنے کا اختیار منتخب نمائندے یعنی وزیر اعلیٰ کو دیا گیا ہے ، وزیر اعلیٰ گورنر کو اسمبلی توڑنے کی ایڈوائز جاری کرے گا اور 48 گھنٹے میں اسمبلی تحلیل ہوجائے گی۔

جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ موجودہ کیس میں گورنر نے 19 دسمبر کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا گیا۔

جسٹس عابد عزیز شیخ نے استفسار کیا کہ اگر گورنر کہتے کہ اعتماد کا ووٹ 10 دن میں اعتماد کا ووٹ لیں تو پھر کیا ہوتا؟

جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ 19 دسمبر کو پہلے تحریک عدم اعتماد آئی ، اسکے بیس منٹ بعد گورنر نے بھی اپنا حکم جاری کردیا ، اس ساری کہانی کا مقصد اسمبلی کی تحلیل سے روکنا تھا ، 23 دسمبر کو عدم اعتماد کی تحریک واپس لے لی گئی۔ ہم عدم اعتماد کی تحریک کے لیے تیار تھے کیونکہ اس میں اپوزیشن نے اپنے نمبر شو کرنے تھے ، اعتماد کے ووٹ میں وزیر اعلیٰ نے اپنی اکثریت شو کرنا ہوتی ہے۔

جسٹس عاصم حفیظ کا استفسار کیا کہ آپ نے جو اسمبلی رولز پڑھے ہیں اسکے مطابق گورنر اعتماد کا ووٹ لینے کی تاریخ مقرر کرسکتا ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ووٹ کی تاریخ مقرر کرنے کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل 130 کے شق 7 کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔

جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ آئین گورنر کو اعتماد کے ووٹ کی تاریخ مقرر کرنے کا اختیار نہیں دے رہا، آئین صرف گورنر کو اعتماد کے ووٹ کہنے کا اختیار دے رہا ہے ، دوسری جانب جو اسمبلی رولز آپ نے پڑھے ہیں اس کے مطابق گورنر کو اختیار ہے کہ اعتماد کے ووٹ کی تاریخ مقرر کرے۔

جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ اگر آپکی بات مان لی جائے کہ گورنر تاریخ نہیں دے سکتا تو اس میں دو صورتیں ہیں ، فرض کریں اگر گورنر اعتماد کے ووٹ کی تاریخ نہیں دیتا اور اسپیکر اجلاس 35 دن کے لیے ملتوی کر دیتا ہے تو پھر گورنر کیا کرے گا؟

جسٹس عابد عزیز شیخ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آپ کے تمام دلائل کے نچوڑ میں دو چیزیں سمجھے ہیں ، ایک آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ گورنر نے اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے مناسب وقت نہیں دیا ، دوسرا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ گورنر نے جو نوٹیفکیشن جاری کیا وہ غیر قانونی ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آئین کے تحت گورنر کے پاس اعتماد کے ووٹ کا کہنے کے لیے ایک طریقہ کار ہے ، وہ طریقہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے 9 ممبران گورنر کو لکھتے کہ انہیں وزیراعلی پر اعتماد نہیں رہا ، یا پھر ق لیگ کی پارلیمانی پارٹی کے چھ ارکان گورنر کو لکھتے کہ انہیں پرویز الٰہی پر اعتماد نہیں رہا۔ موجودہ کیس میں ایسا کچھ نہیں ہوا مگر گورنر نے اعتماد کے ووٹ کے لیے کہہ دیا۔

جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ اگر ایک وزیر عہدے سے استعفی دے دے تو کیا گورنر اس بنیاد پر اعتماد کے ووٹ کا کہہ سکتا ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ بلکل نہیں ایسی صورت میں گورنر اعتماد کے ووٹ کا نہیں کہہ سکتا۔

جسٹس عاصم حفیظ نے استفسار کیا کہ 186 میں سے ایک نکل جائے تو اکثریت ختم تو ہو گئی ناں ؟

جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ منظور ووٹو کیس میں بلا آخر عدالت نے کہا تھا کہ دس روز میں اعتماد کا ووٹ لیں۔

پرویز الٰہی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر منظور ووٹو کیس کا فیصلہ پڑھ کر سنایا ۔

جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ آپ صرف منظور ووٹو کیس کا آخری پہرہ پڑھیں تاکہ ہم سمجھ سکیں کہ کیا مماثلت ہے۔

واضح رہے کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس عدالت میں پیش ہوئے اور گورنر پنجاب کے وکیل خالد اسحاق  عدالت میں پیش ہوئے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے جبکہ پرویز الہی کے وکیل بیرسٹر سید علی ظفر عدالت میں پیش ہوئے۔

یاد رہے کہ چودھری پرویزالٰہی نے گورنر پنجاب کے ڈی نوٹیفائی کرنے کے اقدام کو ہائی کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے، عدالت نے گورنر پنجاب کے وزیراعلیٰ پرویز الہیٰ کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے اقدام پر عملدرآمد روک رکھا ہے۔عدالت نے اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل پاکستان کو معاونت کیلئے طلب کر رکھا ہے۔ ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ گورنر پنجاب نے اعتماد کا ووٹ لینے کيلئے وزیر اعلیٰ کو خط لکھا ہی نہیں۔

متعلقہ تحاریر