صحافی نعمان وہاب نے نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کا کچا چٹھا کھول دیا

ایک میڈیاہاؤس کا مالک ہونا ہی محسن نقوی کو نگراں سیٹ اپ کیلیے نااہل کرتا ہے لیکن کیا کریں نجم سیٹھی نے جو روایت ڈالی ہے صحافی بھی اب وقتا فوقتاً تھوڑی بہت طوائفیت کر لیتے ہیں، رپورٹر دی نیوز

جنگ گروپ کے انگریزی روزنامہ دی نیوز سے وابستہ صحافی نعمان وہاب نے پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ اور 24نیوز کے مالک محسن نقوی کا کچاچٹھا کھول کر رکھ دیا۔

نعمان وہاب نے صحافیوں کے سرکاری عہدہ قبول کرنے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

پلی بارگین کرنے والا کوئی بھی شخص عوامی عہدہ نہیں رکھ سکتا، سپریم کورٹ

نگراں وزیراعلیٰ پنجاب کا تقرر،سپریم کورٹ، میڈیا اور خود محسن نقوی کیلیے چیلنج

ایف ایف آئی اور نیب کی خبریں دینے والے نعمان وہاب نے اپنے ٹوئٹر تھریڈ میں لکھا کہ”محسن نقوی سے میرا پہلا تعارف 2010 میں ہوا جب لاہور کی تاریخ کا سب سے لمبا کیمپ سٹی 42 کے ملازمین کی جانب سے تنخواہوں کی عدم ادائیگی کی بنا پر لاہور پریس کلب میں لگایا گیا “۔

انہوں نے بتایا کہ”دوسرا تعارف ماضی قریب میں ہوا جب سٹی گروپ کا ایک صحافی جس کا چند ماہ کا بچہ تھا، جوانی میں دل کا دورہ پڑنے سے فوت ہوگیا،کیا خوبصورت نوجوان تھا، جنازے پرہزاروں آنکھیں اشکبار تھیں، الزام ادھر بھی وہی تھا کم تنخواہ اور وقت پر عدم  ادائیگی ،سٹی گروپ نے ان الزامات کی تردید کی “۔

انہوں نے کہا کہ” محسن نقوی سے میرا تیسرا تعارف لاہور ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی راہداریوں میں ہوا جہاں پر سرگوشیوں میں موصوف کی اپنےملازمین کے نام پر ایک ہاؤسنگ سوسائٹی جو کہ پچھلے دنوں میڈیا میں زیر بحث بھی رہی، میں شراکت داری اور اسکو ایل ڈی اے سے مختلف ریلیف دلوانے کے الزامات کے ساتھ ساتھ انکے اپنے ذاتی گھر کو بھی کسی حد تک قانونی ریلیف دیے جانے کے الزامات گردش کر رہے ہیں“۔

انہوں نے بتایا کہ”  محسن نقوی سے میرا چوتھا تعارف رجیم چینج آپریشن کے دوران ہوا جب موصوف آصف علی زرداری کے ہراول دستے کے کمانڈر کے طور سامنے آئے ۔یوںسامنے آنا انکے لیے مناسب نا تھا ،اس لیے منہ چھپانے کی کوشش کی، محسن نقوی کی سیاسی وابستگی اور اس وابستگی کی بنا پر صحیح غلط کی تمیر کے بغیر احکامات کی تعمیل ہم سب پر عیاں ہے“۔

انہوں نے کہاکہ”  باقی باتیں اپنی جگہ ایک میڈیاہاؤس کا مالک ہونا ہی انہیں نگراں سیٹ اپ کیلیے نااہل کرتا ہے  لیکن کیا کریں نجم سیٹھی نے جو روایت ڈالی ہے صحافی بھی اب وقتا فوقتاً تھوڑی بہت طوائفیت کر لیتے ہیں“۔

متعلقہ تحاریر