نیوکراچی میں 8 سالہ عبدالرحمان جنسی زیادتی کے بعد قتل
سماجی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اس قسم کے واقعات معاشرے میں پھیلی بے راہ روی کے عکاس ہیں ، انٹرنیٹ کے غلط استعمال نے لوگوں کی اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے۔
جن قوموں میں اخلاقیات بلند ہوتی ہیں وہ دنیا میں بلند مرتبے پر فائر ہوتی ہیں مگر جن قوموں میں اخلاقیات ختم ہو جاتی ہیں تو بے راہ روی عام ہو جاتی ہے۔ ایسا ہی اخلاق باختہ ایک واقعہ صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی کے علاقے نیو کراچی میں پیش آیا ہے جہاں ایک 8 سالہ بچے عبدالرحمان کو قبرستان میں زیادتی کے بعد گلا دبا کر قتل کردیا گیا۔ پولیس کے مطابق پوسٹ مارٹم میں زیادتی ثابت ہو گئی ہے۔
ایس ایچ او تھانہ نیو کراچی کا کہنا ہے کہ قتل ہونے والے بچے کی ایف آئی آر اس کے والد آصف کی مدعیت میں درج کی گئی تھی، جس کے بعد بچے کا پوسٹ مارٹم کیا گیا ہے ، ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے نمونے لیبارٹری بھیجے گئے تھے جس سے ثابت ہوگیا ہےکہ بچے کو قتل سے قبل زیادتی کا نشانہ بنایا۔
یہ بھی پڑھیے
اربوں روپے کا فراڈ، ایف آئی اے کا کرپٹو کرنسی ایکسچینج کو نوٹس
کسٹم حکام کی طور خم بارڈر پر کارروائی، 1 بلین کی منشیات برآمد
ایس ایچ او نیو کراچی کا کہنا ہے کہ تحقیقات جاری ہیں تاہم ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔
ایس ایچ او شاہد تاج کا کہنا ہے قاتل نے پہچانے جانے کے خوف سے بچے کو اسی کے ٹروزر سے گلا دبا کر قتل کردیا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ جس نے بھی یہ کام کیا ہے وہ شخص کوئی قریبی رشتے دار ہےیا پھر کسی محلے دار کی یہ کارروائی لگ رہی ہے۔
نیو کراچی کا پھول جیسا عبدالرحمن پہلے اغواء ہوا پھر مقامی قبرستان سے اسکی برہنہ لاش اس حالت میں ملی کہ اسی کے ٹراؤزر سے گلا گھونٹ ہمیشہ کیلئے اس کلی کو مسل دیا گیا بچے کیساتھ زیادتی کے بھی اشارے ملے ہیں ہمارے معاشرے کے گھٹیا لوگوں کیطرف سے یہ پہلی بار ہے نہ آخری pic.twitter.com/kVFDbZrcpv
— Faizullah Khan (@FaizullahSwati) January 7, 2022
ایف آئی آر کے مطابق مقتول بچہ 4 جنوری 2022 میں گھر سے کھیلنے کے لیے نکلا تھا تاہم شام تک بچے کے گھر واپس نہ آنے پر تلاش شروع کی گئی تو اگلے روز لاش قریبی قبرستان سے برآمد ہوئی۔
ایس ایچ او نیو کراچی شاہد تاج کا کہنا ہے ملزمان کے خلاف اغواء اور قتل کی ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے جبکہ خفیہ اطلاعات کے تحت مختلف مقامات پر چھاپے بھی مارے جارہے ہیں۔
اس دل سوز واقعے پر سیاسی اور سماجی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اس قسم کے واقعات معاشرے میں پھیلی بے راہ روی کے عکاس ہیں ، انٹرنیٹ کے غلط استعمال نے لوگوں کی اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہمارے اساتذہ اور علمائے دین کو لوگوں کی رہنمائی کے لیے آگے آنا ہوگا ، انہیں معاشرے کی اخلاقیات کو بہتر بنانے کے درس و تدریس کے لیے پروگرام ترتیب دینے چاہئیں۔ سماجی رہنماؤں کا کہنا ہے حکومت ہماری کچھ کرنےکے قابل تو ہیں نہیں، اس لیے والدین کو اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے خود کردار ادا کرنا ہوگا، بچوں کو گھروں سے اکیلے نکلنے سے روکنا ہوگا۔ اور اگر بچوں کا باہر جانا بہت ضروری ہے جیسے اسکول وغیرہ جانا ہے تو انہیں اپنی نگرانی میں اسکول چھوڑ کر آنا چاہئے چاہے اسکول دور ہو یا نزدیک ہو۔
سماجی رہنماؤں کا کہنا ہے ایک صالح معاشرے کی پہچان اس میں بسنے والے لوگوں کے طرزعمل ہوتا ہے ، اور اگر معاشرے کی اخلاقیات بگاڑ کا شکار ہوجائیں تو حکومت اور معاشرے کے سرکردہ افراد کو اپنا کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔