کمسن بچی دعا زہرہ کیس میں نیا موڑ، قدیر اور اظہر کی انٹری

اظہر کا کہنا ہے دعا زہرہ کے اغواء میں ماسٹر مائنڈ کا کردار قدیر احمد نے ادا کیا جو ظہیر احمد کا بڑا بھائی ہے۔

دعا زہرہ مغویہ کیس کے حوالے سے انکشافات آنے کا سلسلہ جاری ، کسی طرح سے پولیس کو گمراہ کیا گیا اور کس نے کیا کیا، کیس میں نئے کردار اظہر اور قدیر کا کیا کردار ہے۔؟

دعا زہرہ مغویہ کیس کے شروع میں ہمارے سامنے صرف دو نام آئے تھے ایک دعا زہرہ کے مبینہ شوہر ظہیر احمد اور دوسرے ان کے بھائی شبیر احمد کا۔

یہ بھی پڑھیے

آصف زرداری، بلاول اور شہباز شریف ذاتی دولت سے سیلاب زدگان کی مدد کریں، سراج الحق

مغویہ بچی کیس، ملزمان کی مشکلات میں اضافہ ہونے لگا

نیوز 360 کی تحقیقات کےنتیجے میں اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ ظہیر احمد کا ایک تیسرا بھائی بھی ہے جس کا قدیر احمد ہے۔ تحقیقات کے نتیجے میں جو چوتھا نام سامنے آیا ہے وہ اظہر کا ہے۔ اظہر ، قدیر احمد کا برادری نسبتی ہے۔

معاملہ کھلا کیسے

نیوز 360 کی تحقیقات کے مطابق قدیر احمد نے اپنی اہلیہ (اظہر کی بہن) پر تشدد کرنا شروع کردیا اور گھر سے نکال دیا تھا۔ جس کا بدلہ لینے کے لیے اظہر نے کمی سن بچی دعا زہرہ کو چشتیاں سے بازیاب کرانے میں پولیس کی مدد کی۔

کمسن دعا زہرہ کو ورغلا کر لے جانے کا سارا کارنامہ ظہیر احمد نےادا کیا تھا ، مگر اس سارے گیم پلان کا ماسٹر مائنڈ شبیر احمد ہے۔

نیوز 360 کو حاصل ہونے والی ویڈیو سے ثابت ہوگیا ہے کہ ظہیر احمد نے کمسن بچی کو موبائل کی حد تک محدود رکھا۔ مگر گیم پلانر شبیر احمد موبائل کے ساتھ پورے پنجاب کا سفر کرتا تھا اور اپنی لوکیشن تبدیل کرتا رہتا تھا۔ لوکیشن تبدیل کرنے کا مقصد پولیس کو گمراہ کرنا تھا۔

واضح رہے کہ یہ کیس کے ابتدائی دنوں کی بات ہے جب پولیس کمسن بچی کو بازیاب کرانے کے لیے چھاپہ مار کارروائی کرتی تھی تو بچی مطلوبہ جگہ پر نہیں ملتی تھی اور لوکیشن تبدیل ہو جاتی تھی۔

نیوز 360 کو موصول ہونے ویڈیو سے اس بات کا بھی انکشاف ہوا ہے کہ ظہیر احمد کی ساری فیملی مختلف شہروں کا سفر نہیں کرتی تھی بلکہ صرف شبیر احمد بائیک کے ذریعے اپنی لوکیشن کو تبدیل کرتا رہتا تھا۔

اپنی لوکیشن کو مختلف شہروں میں شو کرنے کے لیے مختلف گاؤں سے کم پڑھے لوگوں کے این آئی سی اور انگوٹھے کے نشانات حاصل کیے اور ان ہی ناموں سے سمز نکلوائیں۔ ایک سم جو پولیس نے برآمد کی ہے وہ سم ایک 63 سالہ خاتون کے نام پر جو شبیر احمد استعمال کرتا تھا۔ ان بڑھی خاتون کو گرفتار کرکے کراچی بھی لایا تھا جنہوں نے اپنا بیان بھی ریکارڈ کرایا تھا۔

بڑھی اماں کا بیان اس بات کو ثبوت ہے کہ ظہیر احمد اور کمسن دعا زہرہ کی شادی پسند کی شادی نہیں تھی بلکہ ایک دھوکے کی شادی تھی۔

نیوز 360 کی تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ظہیر احمد کی فیملی کا مقصد مغویہ بچی کو دو سال تک منظر سے غائب رکھنے کا منصوبہ تھا۔

کمسن مغویہ بچی دعا زہرہ کے کیس کے حوالے سے کل کا دن بہت اہم ہے۔ کل کیس میں دو درخواستوں پر سماعت ہونی ہے ایک بچی کے ایم ایل او کے حوالے سے اور دوسرا کیس دونوں بھائیوں کی عبوری ضمانت کے حوالے سے ہے۔

اگر کل عدالت سے بچی کے ایم ایل او کی اجازت مل جاتی ہے تو امید ہے کہ کیس بہت جلد حل ہو جائے گا۔ مگر ظہیر احمد کی جانب سے ایم ایل او کی مخالفت کی جارہی ہے۔

متعلقہ تحاریر