رہائی والے روز دعا زہرہ نے ‘سدابہار’ کا سوٹ پہن رکھا تھا، برینڈ کا دعویٰ

یاد رہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس اقبال کلہوڑو نے جمعے کے روز مغویہ بچی دعا زیرہ کو عارضی طور پر والدین کے ساتھ جانے کی اجازت دی تھی۔

بلاآخر مغویہ بچی دعا زہرہ کے والد مہدی علی کاظمی کی محنت رنگ لی آئی اور سندھ ہائی کورٹ نے بچی کو والدین کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی۔  بچی جس سوٹ میں اپنے والدین کے ساتھ گھر گئی معروف کلوتھنگ برینڈ "سدابہار” نے بڑے افتخار سے یہ اعلان کیا ہے کہ دعا زہرہ نے ان کی برینڈ کا سوٹ زیب تن کیا ہوا تھا۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر پوسٹ شیئر کرتے ہوئے معروف برینڈ "سدابہار” نے لکھا ہے کہ "دعا زہرہ نے رہائی والے روز ‘سدابہار’ کا سوٹ پہنا ہوا تھا۔”

مہدی علی کاظمی کی فریاد سن لی گئی، بچی عارضی طور پر والدین کے سپرد

جمعے کے روز سندھ ہائی کورٹ میں بیان دیتے ہوئے مغویہ بچی نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ "میرا نام دعا زہرا ہے، میں ساتویں کلاس میں پڑھتی تھی، عدالت میں میرے ماں باپ اور  بہن موجود ہیں، میں والدین کے ساتھ جانا چاہتی ہوں۔”

Clothing Brand "Sadabahar"

سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس اقبال کلہوڑو نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ عدالت عارضی طور پر بچی کو والدین کے سپرد کررہی ہے تاہم لڑکی کی مستقل حوالگی کا فیصلہ ٹرائل کورٹ نے کرنا ہے۔

کراچی سے  مبینہ طور پر اغوا کے بعد پسند کی شادی کرنے والی بچی کے کیس میں اہم ترین پیش رفت جمعے کے روز سامنے آئی تھی جب سندھ ہائیکورٹ نے بچی کی رضامندی کے بعد اسے عارضی طور پر والدین کے حوالے کردیا تھا۔

کیس کی سماعت کا احوال

بچی کے والد مہدی علی کاظمی کی جانب سے ان کے وکیل جبران ناصر نے سندھ ہائی کورٹ میں بچی کی حوالگی کی درخواست دائر کی تھی ، جسے جمعے کے روز عدالت نے قبولیت کا شرف بخشا تھا۔

دوران سماعت ظہیر احمد کے وکیل نے عدالت سے کہا کہ یہ درخواست ناقابل سماعت ہے، جوڈیشل مجسٹریٹ نے بچی کی حوالگی سے متعلق درخواست مسترد کر دی تھی، بچی کی حوالگی سے متعلق درخواست ٹرائل کورٹ میں بھی زیر التواء ہے، درخواست گزار کے پاس اب بھی متعلقہ فورم موجود ہے۔

ظہیر احمد کے وکیل کا مزید کہنا تھا کہ درخواست گزار کو ٹرائل کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے، عدالتی احکامات پر بچی کو شیلٹر ہوم بھیجا گیا تھا، بچی کو حبس بے جا میں نہیں رکھا گیا، بچی اس کیس کی مرکزی گواہ ہے۔

وکیل ظہیر احمد کا کہنا تھا والدین کی بچی سے پانچ ملاقاتیں ہو چکی ہیں، بچی سے پوچھ لیتے ہیں کہ وہ والدین کے پاس جانا چاہتی ہے یا نہیں، ظہیر احمد کو بھی لڑکی سے ملنے کی اجازت دی جائے۔

جسٹس اقبال کلہوڑو نے بچی کو بلا کر پوچھا کہ بیٹا آپ کا نام کیا ہے، جس پر لڑکی نے بتایا کہ میرا نام دعائے زہرا ہے، میں ساتویں کلاس میں پڑھتی تھی، عدالت میں میرے ماں باپ اور  بہن موجود ہیں، میں والدین کے ساتھ جانا چاہتی ہوں۔

وکیل ظہیر احمد نے کہا کہ بچی کو باہر لے جانے سے روکا جائے جس پر جسٹس اقبال کلہوڑو نے کہا کہ ہر کوئی ماں باپ کے گھر جانا چاہتا ہے، کوئی اپنے ماں باپ کا گھر نہیں چھوڑنا چاہتا، عدالتیں سب کے لیے کھلی ہوئی ہیں، بچی چھوٹی ہے والدین کے پاس جانا چاہتی ہے شیلٹر ہوم میں نہیں جانا چاہتی۔

عدالت نے لڑکی کے والد مہدی کاظمی سے سوال کیا کہ عدالت کو کیا گارنٹی دیں گے؟ عدالت نے لڑکی کی والدہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کو بچی دے رہے ہیں، آپ پر اب بھاری ذمہ داری ہے۔

سندھ ہائیکورٹ نے بچی کو عارضی طور پر والدین کے ساتھ جانے کی اجازت دیتے ہوئے کہا کہ لڑکی کی مستقل حوالگی کا فیصلہ ٹرائل کورٹ نے کرنا ہے۔

متعلقہ تحاریر